قبروں پر ہری ٹہنیاں لگانے کے لیے حدیث نبوی سے استدلال
بِسْــــــــــــــــــــــ ـمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
┄┅══════════════⇐⇩⇒═══════ ═══════┅┄
┄┅═⇐✺↾قبروں پر ہری ٹہنیاں لگانے کے لیے حدیث نبوی سے استدلال↿✺⇒═┅┄
┄┅══════════════⇐⇩⇒═══════ ═══════┅┄
صحیح حدیث شریف میں جناب رسول اللہﷺ کا ایک عمل منقول ہے جس کی تفصیل یہ ہے :
عن ابن عباس، قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم بقبرين، فقال: "إنهما ليعذبان، وما يعذبان في كبير، اما احدهما فكان لا يستتر من البول، واما الآخر فكان يمشي بالنميمة، ثم اخذ جريدة رطبة فشقها نصفين فغرز في كل قبر واحدة، قالوا: يا رسول الله، لم فعلت هذا؟ قال: لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا"،
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں پر گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں قبر والوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑے گناہ پر نہیں۔ ایک تو ان میں سے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی لے کر بیچ سے اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر ایک قبر پر ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایسا) کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شاید جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان پر عذاب میں کچھ تخفیف رہے
(صحيح البخاري 218، صحيح مسلم 292 ،باب الدليل على نجاسة البول، وسنن ابي داود 20)
اس حدیث سے اولیاء کی قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانے کی دلیل لینا پرلے درجہ کی جہالت اور حدیث کے نام پر عوام کو مغالطہ ہے ،کیونکہ بحیثیت نبی آپ ﷺ کو وحی سے علم ہوگیا تھا کہ ان دو قبروں والوں کو عذاب ہورہا ہے اور عذاب کا سبب فلاں عمل ہے ،تو آپ ﷺ نے ان کے عذاب میں تخفیف کیلئے یہ عمل کیا ، تو اب جو لوگ قبروں پر پھول ڈالتے ہیں انہیں بھی بذریعہ وحی علم ہوجاتا ہے کہ یہ صاحب قبر عذاب میں مبتلاء ہے ،
کیونکہ اس حدیث شریف سے تو اتنا ثابت ہوتا ہے کہ جن مردوں کے متعلق معلوم ہوجائے کہ انہیں عذاب ہورہا ہے ان کی قبروں پر سبز درخت کی شاخیں گاڑدی جائیں
قبور پر اس عمل کے جواز کا رد علماءکرام کے اقوال اور فتاوی کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء / فتاوى اسلاميۃ⇓⇓⇓
۔┄┅═══════════════════════ ═┅┄
يہ عمل بدعت اور مردوں ميں غلو اور حد سے تجاوز كرنا ہے، اور يہ عمل بالكل ان لوگوں كے عمل سے مشابہ ہے جو انہوں نے اپنے صالحين اور اولياء كے ساتھ كيا اور ان كى تعظيم كى اور انہيں شعار بنا ليا.
خدشہ ہے كہ ايام اور زمانہ گزرنے كے ساتھ ساتھ يہ قبروں پر قبہ كى تعمير اور ان سے تبرك كے حصول اور انہيں معبود بنانے كا باعث بن جائيگا، اس ليے شرك كے سد ذريعہ كے ليے ايسا كام ترك كرنا واجب و ضرورى ہے.
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء .
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 1 / 20 )
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:⇓⇓⇓
۔┄┅═══════════════════════ ═┅┄
يہ مشروع نہيں بلكہ بدعت ہے؛ اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو ان دونوں قبروں پر اس ليے ٹہنى ركھى كہ اللہ تعالى نے ان كے عذاب سے انہيں مطلع كيا تھا، اور اس كےعلاوہ كسى اور قبر پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہيں ركھى.
تو اس سے علم ہوا كہ يہ قبروں پر ركھنى جائز نہيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے ايسا كوئى عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں ہے تو وہ عمل مردود ہے"
اورمذكورہ دونوں حديثوں كى بنا پر اسى طرح نہ تو قبروں پر كتبے لگانا اور لكھنا، اور پھول وغيرہ ركھنا جائز نہيں؛ اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو قبريں پختہ كرنے اور اس پرعمارت قائم كرنے اور اس پر بيٹھنے اور اس پر لكھنےسے منع فرمايا ہے. اھـ
ديكھيں: مجلۃ البحوث الاسلاميۃ ( 68 / 50 ).
مشہور حنفی محدث علامہ بدرالدین عینیؒ (المتوفى: 855 ھ)⇓⇓⇓
۔┄┅═══════════════════════ ═┅┄
شرح صحیح بخاری میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
وَقَالَ النَّوَوِيّ: قَالَ الْعلمَاء: هُوَ مَحْمُول على أَنه صلى الله عَلَيْهِ وَسلم سَأَلَ الشَّفَاعَة لَهما فاجيبت شَفَاعَته بِالتَّخْفِيفِ عَنْهُمَا إِلَى أَن ييبسا. وَقيل: يحْتَمل أَنه صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يَدْعُو لَهما تِلْكَ الْمدَّة، وَقيل: لِكَوْنِهِمَا يسبحان مَا دامتا رطبتين وَلَيْسَ لليابس بتسبيح، قَالُوا: فِي قَوْله تَعَالَى: {وَإِن من شَيْء إلاَّ يسبح بِحَمْدِهِ} (الْإِسْرَاء: 44) مَعْنَاهُ: وَإِن من شَيْء حَيّ، ثمَّ حَيَاة كل شَيْء بِحَسبِهِ، فحياة الْخَشَبَة مَا لم يتبس وحياة الْحجر مَا لم يقطع، وَذهب الْمُحَقِّقُونَ إِلَى أَنه على عُمُومه، ))
یعنی امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ علماء کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلى الله عَلَيْهِ وَسلم کا یہ عمل مبارک اس بات پر محمول ہے کہ آپ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نے ان عذاب میں مبتلا ان دونوں افراد کیلئے دعاء و شفاعت فرمائی ،تو آپ کی شفاعت ان ٹہنیوں کے تر رہنے تک کیلئے قبول ہوئی ، اسلئے آپ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نے یہ ٹہنیاں قبروں پر لگائیں ، اور ان ٹہنیوں کے گاڑنے کا ایک احتمال یہ بھی بتایا ہے کہ ان کے تر رہنے کی مدت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دعاء کی ہو ،جس سے ان پر سے اس وقت کیلئے عذاب میں تخفیف کی گئی ہو ، اور یہ تر ٹہنیاں لگانے کا یہ احتمال بھی بتایا گیا ہے کہ خشک ہونے تک وہ ٹہنیاں اللہ کی تسبیح کرتی ہیں ،اسلئے فرمایا کہ ان کے خشک ہونے تک شاید ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائے ، کیونکہ خشک (یعنی مردہ ٹہنی تسبیح نہیں کرتی ) اور یہ قول قرآن کی سورۃ اسراء 44 اس آیت سے ماخوذ ہے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ (ہر چیز اللہ کی تسبیح وحمدکرتی ہے ) جس کا معنی یہ ہے کہ ہر زندہ چیز اسکی تسبئح کرتی ہے ، اور ہر شیئے کی حیاۃ اپنے حساب سے ہے ،
امام شرف الدين الحسين بن عبد الله الطيبي (743ھ)⇓⇓⇓
۔┄┅═══════════════════════ ═┅┄
شرح مشکاۃ المصابیح میں اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ :
"وأما وضعه صلى الله عليه وسلم الجريدتين علي القبر فقال العلماء: هو محمول علي أنه صلى الله عليه وسلم سأل الشفاعة لهما فأجيب بالتخفيف عنهما إلي أن ييبسا. وقد ذكر مسلم في آخر الكتاب في الحديث الطويل حديث جابر: ((أن صاحبي القبرين أجيبت شفاعتي [فيهما])) أي برفع] ذلك عنهما ما دام القضيبان رطبين. وقيل: يحتمل أنه صلى الله عليه وسلم كان يدعو لهما تلك المدة. وقيل: لكونهما يسبحان ما داما رطبين،
" یعنی امام الطیبی ؒ فرماتے ہیں کہ نبی مکرم صلى الله عَلَيْهِ وَسلم کا دو قبروں پر دو شاخیں لگانے کی جہاں تک بات ہے تو علماء کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلى الله عَلَيْهِ وَسلم کا یہ عمل مبارک اس بات پر محمول ہے کہ آپ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نے عذاب میں مبتلا ان دونوں افراد کیلئے دعاء و شفاعت فرمائی ،تو آپ کی شفاعت ان ٹہنیوں کے تر رہنے تک کیلئے قبول ہوئی ، اور امام مسلمؒ نے اپنی کتاب صحیح مسلم کے آخر میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث نقل فرمائی ہے ، جس میں پیارے نبی صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نے فرمایا : ” : إني مررت بقبرين يعذبان فاحببت بشفاعتي ان يرفه عنهما ما دام الغصنان رطبين ’’میں دو ایسی قبروں کے پاس سے گزرا، جن (کے مردوں) کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ میں نے اپنی شفاعت کی وجہ سے چاہا کہ یہ عذاب ان سے ہلکا ہو جائے، جب تک دونوں ٹہنیاں تر رہیں۔“
[صحيح مسلم : ح : 7518]۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ " جب تک یہ شاخیں ہری رہیں گی تسبیح کرتی رہیں گی ، "
➖امام طیبیؒ کی اس توضیح سے اصل صورتحال سامنے آگئی کہ ٹہنیاں لگانے کا واقعہ اصل میں شفاعت رسول صلى الله عَلَيْهِ وَسلم اور دعائے پیمبر سے منسلک ہے ، وہ صرف دو شاخیں قبروں پر گاڑنے کا مسئلہ نہیں بلکہ نبی کریم صلى الله عَلَيْهِ وَسلم کی دعاء و شفاعت کے سبب تخفیف کی امید کی گئی تھی ۔
چوتھی صدی کےعظیم محدث وشارح علامہ حمدبن محمدخطابیؒ(319-388 ھ)⇓⇓⇓
۔┄┅═══════════════════════ ════┅┄
جیسا چوتھی صدی کے عظیم محدث اور شارح علامہ حمد بن محمد خطابی رحمہ اللہ (319-388 ھ) اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :
فإنه من ناحية التبرك بأثر النبي صلى الله عليه وسلم ودعائه بالتخفيف عنهما، وكأنه صلى الله عليه وسلم جعل مدة بقاء النداوة فيهما حَدَّاً لما وقعت به المسألة من تخفيف العذاب عنهما، وليس ذلك من أجل أن في الجريد الرطب معنى ليس في اليابس، والعامة في كثير من البلدان تفرش الخوص في قبور موتاهم وأراهم ذهبوا إلى هذا، وليس لما تعاطوه من ذلك وجه .
’’ان دونوں شخصوں کو عذاب قبر میں تخفیف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیر و برکت اور دعا کی وجہ سے ہوئی۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذاب کی تخفیف کی حد ٹہنیوں کے تر رہنے تک اس لیے بیان کی کہ آپ نے تخفیف کی دعا اتنے ہی عرصے کے بارے میں کی تھی، یہ حد اس لیے بیان نہیں کی گئی کہ تر ٹہنی میں کوئی تاثیر تھی جو خشک میں نہ تھی۔ بہت سے علاقوں میں عام لوگ اپنے مردوں کی قبروں میں کھجور و ناریل وغیرہ کے پتے بچھاتے ہیں، میرے خیال میں ان کے مدنظر یہی بات ہوتی ہے حالانکہ ان کے اس کام کا کوئی جواز نہیں۔“ [معالم السنن للخطابي : 27/1]
ؒ
مصر کے نامور محقق اور محدث علامہ احمد شاکر ؒ (1309-1377ھ)⇓⇓⇓
۔┄┅═══════════════════════ ══┅┄
مصر کے نامور محقق اور محدث علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ (1309-1377ھ) علامہ خطابی کی تائید میں فرماتے ہیں :
وصدق الخطابي، وقد ازداد العامة إصراراً على هذا العمل الذي لا أصل له، وغلوا فيه خصوصاً في بلاد مصر تقليداً للنصارى حتى صاروا يضعون الزهور على القبور، ويتهادونها بينهم فيضعها الناس على قبور أقاربهم ومعارفهم تحيةً لهم ومجاملةً للأحياء، وحتى صارت عادة شبيهة بالرسمية في المجاملات الدولية، فتجد الكبراء من المسلمين إذا نزلوا بلدةً من بلاد أوروبا ذهبوا إلى قبور عظمائها أو إلى قبر من يسمونه الجندي المجهول، وضعوا عليها الزهور، وبعضهم يضع الزهور الصناعية التي لا نداوة فيها تقليداً للإفرنج واتباعاً لسنن من قبلهم ولا ينكر ذلك عليهم العلماء أشباه العامة، بل تراهم أنفسهم يصنعون ذلك في قبور موتاهم، ولقد علمت أن أكثر الأوقاف التي تسمى أوقافاً خيريةً موقوفٌ ريعها على الخوص والريحان الذي يوضع في القبور، وكل هذه بدع ومنكرات لا أصل لها في الدين، ولا مستند لها من الكتاب والسنة، ويجب على أهل العلم أن ينكروها، وأن يبطلوا هذه العادات ما استطاعوا .
’’علامہ خطابی رحمہ اللہ نے بالکل سچ فرمایا ہے۔ عام لوگ عیسائیوں کی تقلید میں اس بے اصل عمل کے کرنے پر بہت زیادہ مصر ہو گئے ہیں اور اس بارے میں غلو کا شکار ہو چکے ہیں، خصوصاً مصر کے علاقے میں، حتی کہ وہ قبروں پر پھول رکھنے لگے اور ایک دوسرے کو تحفے دینے لگے، پھر لوگ ان پھولوں کو اپنے عزیز و اقارب کی قبروں پر تحفے کے طور پر اور زندوں سے حسن سلوک کے طور پر رکھنے لگے۔ یہاں تک کہ یہ طریقہ علاقائی رسوم و رواج کے مشابہ ہو گیا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ مسلمان ملکوں کے سربراہ جب یورپ کے کسی علاقے میں جاتے ہیں تو ان کے عظیم لوگوں یا کسی نامعلوم فوجیوں کی قبروں پر جاتے ہیں اور ان پر پھول چڑھاتے ہیں اور بعض تو بناوٹی پھول بھی رکھتے ہیں جن میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی۔ وہ لوگ یہ کام انگریزوں کی تقلید اور پہلی امتوں کے طریقے کی پیروی کرتے ہوئے کرتے ہیں۔ عام لوگوں کی طرح کے علماء بھی ان کو اس بات سے منع نہیں کرتے بلکہ آپ ان علماءکو دیکھیں گے کہ وہ خود اپنے مردوں کی قبروں پر ایسا کرتے ہیں۔ یہ بات بھی میرے علم میں ہے کہ اکثر اوقاف جنہیں فلاحی اوقاف کہا جاتا ہے، ان کی آمدنی قبروں پر پھول اور پتیاں چڑھانے کے لیے وقف ہے۔ یہ سارے کام بدعات و خرافات ہیں جن کی کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں۔ اہل علم پر ان کا ردّ کرنا اور حسب استطاعت ان رسوم کو ختم کرنا واجب ہے۔“ [تعليق احمد شاكر على الترمذي: 103/1]
ابوالفوزان الشیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ کہتے ہیں ⇓⇓⇓
۔┄┅═══════════════════════ ═┅┄
اس حدیث سے استدل کرتے ہوئے بہت سے لوگ قبروں پر ٹہنی وغیرہ گاڑتے ہیں یا پھول وغیرہ چڑھاتے ہیں لیکن اس حدیث کوسامنے رکھتے ہوئے ہمیں چند چیزوں پرغور کرنا چاہئے۔
۔【➊】
ان قبروالوں پر جوٹہنی گاڑی گئی تھی وہ محض ایک علامت تھی اس مدت کی جس مدت تک ان کے عذاب میں تخفیف ہوگی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا تھا:
مَا دَامَ الْغُصْنَانِ رَطْبَيْنِ [صحيح مسلم 4/ 2307]۔
یعنی جب تک ان ٹہنیوں میں ہریالی رہے گی تب تک ان کا عذاب روک دیا جائے گا۔
ورنہ فی نفسہ ٹہنی میں ایسی کوئی طاقت نہیں تھی کہ اس سے قبر کا عذاب ختم ہوجائے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹہنی کو ٹورتے نہیں کیونکہ ٹوڑنے سے تو اس کی ہریالی جلد چلی جاتی ہے ، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کہا کہ جب تک ٹہنی میں ہریا لی رہے گی تب تک عذاب روک دیا جائے گا۔
معلوم ہوا کہ ٹہنی کی وجہ سے عذاب رفع نہیں ہوا تھا بلکہ ٹہنی تو صرف ایک علامت تھی رفع عذاب کی مدت کی ، اور رفع عذاب کی وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت تھی جیساکہ مسلم کی اس حدیث میں صراحت ہے :
إِنِّي مَرَرْتُ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ، فَأَحْبَبْتُ، بِشَفَاعَتِي، أَنْ يُرَفَّهَ عَنْهُمَا[صحيح مسلم 4/ 2307]۔
یعنی دوقبروں کے پاس سے میں گذرا جن کو عذاب ہورہا تھا تو میں نے چاہا کہ میری شفاعت سے ان کے عذاب میں تخفیف ہوجائے۔
معلوم ہوا کہ رفع عذاب کی اصل وجہ شفاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور ٹہنی ایک علامت تھی ، اور صاحب قبر سے رفع عذاب کے لئے ہم دعاء کرسکتے ہیں ، شفاعت نہیں ، شفاعت یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے اور ٹہینی اس کی علامت تھی ، لہٰذا یہ سارا معاملہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہے۔
۔【➋】
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل ایک ایسی قبرکے ساتھ کیا تھا جس قبروالے کی حالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی بتلادی گئی تھی ، کیونکہ قبرکی حالت غیبی امر ہے اورغیبی امور پر آگاہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی ہی ہواکرتی تھی جیسا کے قران وحدیث کے صریح نصوص سے یہ ثابت ہے۔
تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ عمل قبرکی حالت سے آگاہ ہونے کے بعد ہوا تھا تو جو لوگ اس عمل کی نقل کرتے ہیں ،اور قبروں پر ٹہنی یا پھول وغیرہ ڈالتے ہیں کیا انہیں بھی متعلقہ قبرکی غیبی حالت کا علم ہے ؟؟؟ اگرنہیں تو مذکورہ عمل بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مذکورہ عمل قبر کی غیبی حالت سے آگاہی کے بعد ہوا تھا اور یہ کسی غیر نبی کے لئے ممکن ہی نہیںہے۔
۔【➌】
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن قبروں پر ٹہنی گاڑی تھی ، ان قبروالوں کو عذاب ہورہاتھا !!!
اوراس کی وجہ یہ تھی وہ چغلی کرتے تھے اور پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتے تھے!!!!
ایسے لوگوں کی قبر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹہنی گاڑی تھی ، تو کیا آج جن اولیا ء وغیرہ کی قبروں پر مذکورہ حدیث سے استدلال کرتے ہوئے ٹہنی یا پھول وغیرہ رکھے جاتے ہیں کیا یہ بے چارے اولیاء بھی اپنی زندگی میں چغلی کرتے تھے اور انہیں پیشاب کرنے تک کا سلیقہ نہیں تھا؟؟؟؟؟
یہ تو صاحب قبر کی بہت بڑی توہین ہے کہ اس کی قبر کے ساتھ وہ سلوگ کیا جائے جو چغلخور اور گندے لوگوں کی قبرکے ساتھ کیا گیا۔
۔【➍】
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ یا اہل بیت رضی اللہ عنہم کی قبروں کے ساتھ ایسا نہیں کیا ، اورنہ ہی صحابہ کرام سے ایسا ثابت ہے اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ عمل ایک ایسی قبرکے ساتھ خاص تھا جس کے بارے میں بذریعہ وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبتادیا گیا کہ یہ ان چغلخوروں اورگندے لوگوں کو عذاب ہورہا ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شفاعت کردی۔دیگر قبروں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ بتایا گیا اس لئے دیگرقبروں کے ساتھ یہ عمل نہیں ہوا، معلوم ہوا کہ یہ معاملہ ایک واقعہ ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔
ابو عبدالرحمٰن محمد رفیق طاہر عفااللہ عنہ کہتے ہیں ⇓⇓⇓
۔┄┅═══════════════════════ ═┅┄
نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں قبروں پر ٹہنی لگائی تھی یہ بات بالکل درست ہے لیکن اس حدیث کے تفصیلی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ
①۔ یہ دونوں شخص مسلمان نہ تھے بلکہ " ماتا فی الجاہلیۃ " جاہلیت میں مرچکے تھے یعنی غیر مسلم تھے (کسی مسلمان کی قبر پر ایسا کرنا ثابت نہیں !)
اور یہ دونوں شخص مسلمان نہ تھے بلکہ " ماتا فی الجاہلیۃ " جاہلیت میں مرچکے تھے یعنی غیر مسلم تھے
اس کی دلیل حدیث سے ثابت ہے
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بارہ میں ایک روایت نقل کی ہے جسکے الفاظ ہیں "ھلکا فی الجاہلیۃ " یہ دونوں زمانہ جاہلیت میں ہلاک ہوگئے تھے ۔
②۔ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم بذریعہ وحی معلوم ہوا کہ انہیں عذاب ہو رہا ہے
③۔ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے انکے عذاب میں تخفیف کی درخواست اللہ کے سامنے پیش فرمائین ( عذاب ختم کرنے کے نہیں ! )
④۔ بذریعہ وحی رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ آپ کی شفاعت ان دونوں کے حق میں قبول کرلی گئی ہے لیکن اس وقت تک اسکا اثر رہے گا جبتک یہ دونوں ٹہنیاں تر رہیں گی ۔
ان باتوں کو ملحوظ رکھ کر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ
①۔ یہ سارا معاملہ وحی پر موقوف تھا اور اب وحی کا سلسلہ بند ہو چکا ہے ۔
②۔ قبر پر قبر بننے کے فورا بعد یہ ٹہنیاں نہیں لگائی گئیں بلکہ جب یہ معلوم ہوا کہ انہیں عذاب ہو رہا ہے تب یہ ٹہنیاں لگائی گئیں , اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی معلوم ہوا تھا جبکہ اب کسی کے بس میں نہیں کہ وہ معلوم کر لے کہ انہیں عذاب ہو رہا ہے کہ نہیں , کیونکہ عذاب کا علم ہونے سے قبل ٹہنیاں لگانا ثابت نہیں !
③۔ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قبول کی گئی اور اسے ٹہنیوں کے تر رہنے تک مؤثر رکھنے کا وعدہ کیا گیا , جبکہ اب کسی کو علم نہیں کہ اسکی دعاء مقبول ہے یا مردود اور نہ ہی کسی کے ساتھ یہ وعدہ ہے !
لہذا ایسا کام کرنا درست وجائز نہیں ۔
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء / جلد : 7 /صفحہ : 450 ⇓⇓⇓
۔┄┅═══════════════════════ ═┅┄
جید اور اکابر علماء پر مشتمل سعودی علماء کی کمیٹی (اللجنۃ الدائمۃ ) نے قبروں پر پھول ڈالنے کے مسئلہ پر مفصل فتویٰ دیا
قبر پر پھول یا ہری پتیاں وغیرہ اس عقیدہ سے رکھنا کہ صاحب قبر کے لئے یہ پتیاں سوکھنے تک استغفار کرتی ہیں، یہ سب چیزیں بدعت ہیں، اور شریعت مطہرہ میں اسکی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور مشروع یہ ہے کہ مسلمان میت کے لئے اسکی قبر کے پاس یا کسی بھی جگہ سے استغفار اور دعاء کی جائے، یہی چیزیں اس کو نفع دیں گی،
اور کھجور کی ڈالی یا ہری پتیوں کے قبر پر رکھنے کی مشروعیت پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث: صحيح بخاري، باب الْأَدَبِ، حدیث نمبر 6055، صحيح مسلم، باب الطَّهَارَةِ، حدیث نمبر 292، ترمذي، باب الطَّهَارَةِ، حدیث نمبر 70، نسائي، باب الْجَنَائِزِ، حدیث نمبر 2069، ابو داؤد، باب الطَّهَارَةِ، حدیث نمبر 20، سنن دارمی، باب الطَّهَارَةِ، حدیث نمبر 739.
كہ بے شك نبي صلى الله عليه وسلم کا دو قبروں کے قریب سے گزرہوا، تو آپ نے فرمایا: بے شک ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور ان دونوں کوعذاب کسی بڑے سبب کی وجہ سے نہیں دیا جارہا ہے، بلکہ ان دونوں میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا، اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا، پھر آپ نے کھجور کی تازہ ٹہنی منگوائی، اور اس کے دو ٹکڑے کئے، اور آپ نے ہر ایک قبر پرايک ٹکڑا گاڑ دیا ،اور فرمایا: امید ہے کہ ٹہنیوں کے خشک ہونے تک ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائیگی۔
اس مذکورہ حدیث سے جو لوگ دلیل دیتے ہیں اسکا جواب یہ ہے کہ یہ حادثہ ان دو شخصوں کا عینی خاص واقعہ ہے، اس سے عمومیت کا مفہوم نہ لیا جائے، جسکی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالی نے دی تھی، اور یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، اور اس عمل سے مسلمانوں کی قبرکے سلسلے میں پتیاں رکھنے کے باضابطہ مسنون ہونے پر استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے۔
دیکھیے :اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
بكر أبو زيد ... صالح الفوزان ... عبد الله بن غديان ... عبد العزيز آل الشيخ ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی/ ( جلد 7، صفحہ 450)
فتوی از : فتاویٰ اسلامیہ ⇓⇓⇓
۔┄┅══════════┅┄
طرح قبروں پر املی وغیرہ کا درخت لگانا، جو اور گندم وغیرہ اگانا بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء راشدین رضی اللہ عنھم سے یہ ثابت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ان دو قبروں پر ٹہنیاں گاڑیں،
صحیح بخاری، الجنائز، باب الجریدۃ علی القبر، حدیث: 1361
جن میں مدفون مردوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مطلع فرما دیا تھا، کہ ان کو عذاب ہو رہا ہے، تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ اور یہ عمل انہی دو قبروں کے ساتھ مکصوص تھا کیونکہ ان کے علاوہ اور کسی قبر پر آپ نے کبھی بھی ٹہنی نہیں گاڑی تھی، لہذا مذکورہ بالا حدیث کے پیش نظر مسلمانوں کے لیے دین میں کسی ایسی بات کا ایجاد کرنا جائز نہیں ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہ دیا ہو اور پھر ارشاد باری تعالیٰ بھی ہے:
﴿ أَم لَهُم شُرَكـؤُا۟ شَرَعوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ ﴾
سورة الشورٰى / ٢١
"کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کس اللہ نے حکم نہیں دیا۔۔۔"
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ / جلد : ٢
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
┄┅══════════════⇐⇩⇒═══════
┄┅═⇐✺↾قبروں پر ہری ٹہنیاں لگانے کے لیے حدیث نبوی سے استدلال↿✺⇒═┅┄
┄┅══════════════⇐⇩⇒═══════
صحیح حدیث شریف میں جناب رسول اللہﷺ کا ایک عمل منقول ہے جس کی تفصیل یہ ہے :
عن ابن عباس، قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم بقبرين، فقال: "إنهما ليعذبان، وما يعذبان في كبير، اما احدهما فكان لا يستتر من البول، واما الآخر فكان يمشي بالنميمة، ثم اخذ جريدة رطبة فشقها نصفين فغرز في كل قبر واحدة، قالوا: يا رسول الله، لم فعلت هذا؟ قال: لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا"،
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں پر گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں قبر والوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑے گناہ پر نہیں۔ ایک تو ان میں سے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی لے کر بیچ سے اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر ایک قبر پر ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایسا) کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شاید جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان پر عذاب میں کچھ تخفیف رہے
(صحيح البخاري 218، صحيح مسلم 292 ،باب الدليل على نجاسة البول، وسنن ابي داود 20)
اس حدیث سے اولیاء کی قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانے کی دلیل لینا پرلے درجہ کی جہالت اور حدیث کے نام پر عوام کو مغالطہ ہے ،کیونکہ بحیثیت نبی آپ ﷺ کو وحی سے علم ہوگیا تھا کہ ان دو قبروں والوں کو عذاب ہورہا ہے اور عذاب کا سبب فلاں عمل ہے ،تو آپ ﷺ نے ان کے عذاب میں تخفیف کیلئے یہ عمل کیا ، تو اب جو لوگ قبروں پر پھول ڈالتے ہیں انہیں بھی بذریعہ وحی علم ہوجاتا ہے کہ یہ صاحب قبر عذاب میں مبتلاء ہے ،
کیونکہ اس حدیث شریف سے تو اتنا ثابت ہوتا ہے کہ جن مردوں کے متعلق معلوم ہوجائے کہ انہیں عذاب ہورہا ہے ان کی قبروں پر سبز درخت کی شاخیں گاڑدی جائیں
قبور پر اس عمل کے جواز کا رد علماءکرام کے اقوال اور فتاوی کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء / فتاوى اسلاميۃ⇓⇓⇓
۔┄┅═══════════════════════
يہ عمل بدعت اور مردوں ميں غلو اور حد سے تجاوز كرنا ہے، اور يہ عمل بالكل ان لوگوں كے عمل سے مشابہ ہے جو انہوں نے اپنے صالحين اور اولياء كے ساتھ كيا اور ان كى تعظيم كى اور انہيں شعار بنا ليا.
خدشہ ہے كہ ايام اور زمانہ گزرنے كے ساتھ ساتھ يہ قبروں پر قبہ كى تعمير اور ان سے تبرك كے حصول اور انہيں معبود بنانے كا باعث بن جائيگا، اس ليے شرك كے سد ذريعہ كے ليے ايسا كام ترك كرنا واجب و ضرورى ہے.
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء .
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 1 / 20 )
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:⇓⇓⇓
۔┄┅═══════════════════════
يہ مشروع نہيں بلكہ بدعت ہے؛ اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو ان دونوں قبروں پر اس ليے ٹہنى ركھى كہ اللہ تعالى نے ان كے عذاب سے انہيں مطلع كيا تھا، اور اس كےعلاوہ كسى اور قبر پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہيں ركھى.
تو اس سے علم ہوا كہ يہ قبروں پر ركھنى جائز نہيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے ايسا كوئى عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں ہے تو وہ عمل مردود ہے"
اورمذكورہ دونوں حديثوں كى بنا پر اسى طرح نہ تو قبروں پر كتبے لگانا اور لكھنا، اور پھول وغيرہ ركھنا جائز نہيں؛ اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو قبريں پختہ كرنے اور اس پرعمارت قائم كرنے اور اس پر بيٹھنے اور اس پر لكھنےسے منع فرمايا ہے. اھـ
ديكھيں: مجلۃ البحوث الاسلاميۃ ( 68 / 50 ).
مشہور حنفی محدث علامہ بدرالدین عینیؒ (المتوفى: 855 ھ)⇓⇓⇓
۔┄┅═══════════════════════
شرح صحیح بخاری میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
وَقَالَ النَّوَوِيّ: قَالَ الْعلمَاء: هُوَ مَحْمُول على أَنه صلى الله عَلَيْهِ وَسلم سَأَلَ الشَّفَاعَة لَهما فاجيبت شَفَاعَته بِالتَّخْفِيفِ عَنْهُمَا إِلَى أَن ييبسا. وَقيل: يحْتَمل أَنه صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يَدْعُو لَهما تِلْكَ الْمدَّة، وَقيل: لِكَوْنِهِمَا يسبحان مَا دامتا رطبتين وَلَيْسَ لليابس بتسبيح، قَالُوا: فِي قَوْله تَعَالَى: {وَإِن من شَيْء إلاَّ يسبح بِحَمْدِهِ} (الْإِسْرَاء: 44) مَعْنَاهُ: وَإِن من شَيْء حَيّ، ثمَّ حَيَاة كل شَيْء بِحَسبِهِ، فحياة الْخَشَبَة مَا لم يتبس وحياة الْحجر مَا لم يقطع، وَذهب الْمُحَقِّقُونَ إِلَى أَنه على عُمُومه، ))
یعنی امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ علماء کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلى الله عَلَيْهِ وَسلم کا یہ عمل مبارک اس بات پر محمول ہے کہ آپ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نے ان عذاب میں مبتلا ان دونوں افراد کیلئے دعاء و شفاعت فرمائی ،تو آپ کی شفاعت ان ٹہنیوں کے تر رہنے تک کیلئے قبول ہوئی ، اسلئے آپ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نے یہ ٹہنیاں قبروں پر لگائیں ، اور ان ٹہنیوں کے گاڑنے کا ایک احتمال یہ بھی بتایا ہے کہ ان کے تر رہنے کی مدت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دعاء کی ہو ،جس سے ان پر سے اس وقت کیلئے عذاب میں تخفیف کی گئی ہو ، اور یہ تر ٹہنیاں لگانے کا یہ احتمال بھی بتایا گیا ہے کہ خشک ہونے تک وہ ٹہنیاں اللہ کی تسبیح کرتی ہیں ،اسلئے فرمایا کہ ان کے خشک ہونے تک شاید ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائے ، کیونکہ خشک (یعنی مردہ ٹہنی تسبیح نہیں کرتی ) اور یہ قول قرآن کی سورۃ اسراء 44 اس آیت سے ماخوذ ہے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ (ہر چیز اللہ کی تسبیح وحمدکرتی ہے ) جس کا معنی یہ ہے کہ ہر زندہ چیز اسکی تسبئح کرتی ہے ، اور ہر شیئے کی حیاۃ اپنے حساب سے ہے ،
امام شرف الدين الحسين بن عبد الله الطيبي (743ھ)⇓⇓⇓
۔┄┅═══════════════════════
شرح مشکاۃ المصابیح میں اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ :
"وأما وضعه صلى الله عليه وسلم الجريدتين علي القبر فقال العلماء: هو محمول علي أنه صلى الله عليه وسلم سأل الشفاعة لهما فأجيب بالتخفيف عنهما إلي أن ييبسا. وقد ذكر مسلم في آخر الكتاب في الحديث الطويل حديث جابر: ((أن صاحبي القبرين أجيبت شفاعتي [فيهما])) أي برفع] ذلك عنهما ما دام القضيبان رطبين. وقيل: يحتمل أنه صلى الله عليه وسلم كان يدعو لهما تلك المدة. وقيل: لكونهما يسبحان ما داما رطبين،
" یعنی امام الطیبی ؒ فرماتے ہیں کہ نبی مکرم صلى الله عَلَيْهِ وَسلم کا دو قبروں پر دو شاخیں لگانے کی جہاں تک بات ہے تو علماء کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلى الله عَلَيْهِ وَسلم کا یہ عمل مبارک اس بات پر محمول ہے کہ آپ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نے عذاب میں مبتلا ان دونوں افراد کیلئے دعاء و شفاعت فرمائی ،تو آپ کی شفاعت ان ٹہنیوں کے تر رہنے تک کیلئے قبول ہوئی ، اور امام مسلمؒ نے اپنی کتاب صحیح مسلم کے آخر میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث نقل فرمائی ہے ، جس میں پیارے نبی صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نے فرمایا : ” : إني مررت بقبرين يعذبان فاحببت بشفاعتي ان يرفه عنهما ما دام الغصنان رطبين ’’میں دو ایسی قبروں کے پاس سے گزرا، جن (کے مردوں) کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ میں نے اپنی شفاعت کی وجہ سے چاہا کہ یہ عذاب ان سے ہلکا ہو جائے، جب تک دونوں ٹہنیاں تر رہیں۔“
[صحيح مسلم : ح : 7518]۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ " جب تک یہ شاخیں ہری رہیں گی تسبیح کرتی رہیں گی ، "
➖امام طیبیؒ کی اس توضیح سے اصل صورتحال سامنے آگئی کہ ٹہنیاں لگانے کا واقعہ اصل میں شفاعت رسول صلى الله عَلَيْهِ وَسلم اور دعائے پیمبر سے منسلک ہے ، وہ صرف دو شاخیں قبروں پر گاڑنے کا مسئلہ نہیں بلکہ نبی کریم صلى الله عَلَيْهِ وَسلم کی دعاء و شفاعت کے سبب تخفیف کی امید کی گئی تھی ۔
چوتھی صدی کےعظیم محدث وشارح علامہ حمدبن محمدخطابیؒ(319-388 ھ)⇓⇓⇓
۔┄┅═══════════════════════
جیسا چوتھی صدی کے عظیم محدث اور شارح علامہ حمد بن محمد خطابی رحمہ اللہ (319-388 ھ) اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :
فإنه من ناحية التبرك بأثر النبي صلى الله عليه وسلم ودعائه بالتخفيف عنهما، وكأنه صلى الله عليه وسلم جعل مدة بقاء النداوة فيهما حَدَّاً لما وقعت به المسألة من تخفيف العذاب عنهما، وليس ذلك من أجل أن في الجريد الرطب معنى ليس في اليابس، والعامة في كثير من البلدان تفرش الخوص في قبور موتاهم وأراهم ذهبوا إلى هذا، وليس لما تعاطوه من ذلك وجه .
’’ان دونوں شخصوں کو عذاب قبر میں تخفیف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیر و برکت اور دعا کی وجہ سے ہوئی۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذاب کی تخفیف کی حد ٹہنیوں کے تر رہنے تک اس لیے بیان کی کہ آپ نے تخفیف کی دعا اتنے ہی عرصے کے بارے میں کی تھی، یہ حد اس لیے بیان نہیں کی گئی کہ تر ٹہنی میں کوئی تاثیر تھی جو خشک میں نہ تھی۔ بہت سے علاقوں میں عام لوگ اپنے مردوں کی قبروں میں کھجور و ناریل وغیرہ کے پتے بچھاتے ہیں، میرے خیال میں ان کے مدنظر یہی بات ہوتی ہے حالانکہ ان کے اس کام کا کوئی جواز نہیں۔“ [معالم السنن للخطابي : 27/1]
ؒ
مصر کے نامور محقق اور محدث علامہ احمد شاکر ؒ (1309-1377ھ)⇓⇓⇓
۔┄┅═══════════════════════
مصر کے نامور محقق اور محدث علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ (1309-1377ھ) علامہ خطابی کی تائید میں فرماتے ہیں :
وصدق الخطابي، وقد ازداد العامة إصراراً على هذا العمل الذي لا أصل له، وغلوا فيه خصوصاً في بلاد مصر تقليداً للنصارى حتى صاروا يضعون الزهور على القبور، ويتهادونها بينهم فيضعها الناس على قبور أقاربهم ومعارفهم تحيةً لهم ومجاملةً للأحياء، وحتى صارت عادة شبيهة بالرسمية في المجاملات الدولية، فتجد الكبراء من المسلمين إذا نزلوا بلدةً من بلاد أوروبا ذهبوا إلى قبور عظمائها أو إلى قبر من يسمونه الجندي المجهول، وضعوا عليها الزهور، وبعضهم يضع الزهور الصناعية التي لا نداوة فيها تقليداً للإفرنج واتباعاً لسنن من قبلهم ولا ينكر ذلك عليهم العلماء أشباه العامة، بل تراهم أنفسهم يصنعون ذلك في قبور موتاهم، ولقد علمت أن أكثر الأوقاف التي تسمى أوقافاً خيريةً موقوفٌ ريعها على الخوص والريحان الذي يوضع في القبور، وكل هذه بدع ومنكرات لا أصل لها في الدين، ولا مستند لها من الكتاب والسنة، ويجب على أهل العلم أن ينكروها، وأن يبطلوا هذه العادات ما استطاعوا .
’’علامہ خطابی رحمہ اللہ نے بالکل سچ فرمایا ہے۔ عام لوگ عیسائیوں کی تقلید میں اس بے اصل عمل کے کرنے پر بہت زیادہ مصر ہو گئے ہیں اور اس بارے میں غلو کا شکار ہو چکے ہیں، خصوصاً مصر کے علاقے میں، حتی کہ وہ قبروں پر پھول رکھنے لگے اور ایک دوسرے کو تحفے دینے لگے، پھر لوگ ان پھولوں کو اپنے عزیز و اقارب کی قبروں پر تحفے کے طور پر اور زندوں سے حسن سلوک کے طور پر رکھنے لگے۔ یہاں تک کہ یہ طریقہ علاقائی رسوم و رواج کے مشابہ ہو گیا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ مسلمان ملکوں کے سربراہ جب یورپ کے کسی علاقے میں جاتے ہیں تو ان کے عظیم لوگوں یا کسی نامعلوم فوجیوں کی قبروں پر جاتے ہیں اور ان پر پھول چڑھاتے ہیں اور بعض تو بناوٹی پھول بھی رکھتے ہیں جن میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی۔ وہ لوگ یہ کام انگریزوں کی تقلید اور پہلی امتوں کے طریقے کی پیروی کرتے ہوئے کرتے ہیں۔ عام لوگوں کی طرح کے علماء بھی ان کو اس بات سے منع نہیں کرتے بلکہ آپ ان علماءکو دیکھیں گے کہ وہ خود اپنے مردوں کی قبروں پر ایسا کرتے ہیں۔ یہ بات بھی میرے علم میں ہے کہ اکثر اوقاف جنہیں فلاحی اوقاف کہا جاتا ہے، ان کی آمدنی قبروں پر پھول اور پتیاں چڑھانے کے لیے وقف ہے۔ یہ سارے کام بدعات و خرافات ہیں جن کی کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں۔ اہل علم پر ان کا ردّ کرنا اور حسب استطاعت ان رسوم کو ختم کرنا واجب ہے۔“ [تعليق احمد شاكر على الترمذي: 103/1]
ابوالفوزان الشیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ کہتے ہیں ⇓⇓⇓
۔┄┅═══════════════════════
اس حدیث سے استدل کرتے ہوئے بہت سے لوگ قبروں پر ٹہنی وغیرہ گاڑتے ہیں یا پھول وغیرہ چڑھاتے ہیں لیکن اس حدیث کوسامنے رکھتے ہوئے ہمیں چند چیزوں پرغور کرنا چاہئے۔
۔【➊】
ان قبروالوں پر جوٹہنی گاڑی گئی تھی وہ محض ایک علامت تھی اس مدت کی جس مدت تک ان کے عذاب میں تخفیف ہوگی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا تھا:
مَا دَامَ الْغُصْنَانِ رَطْبَيْنِ [صحيح مسلم 4/ 2307]۔
یعنی جب تک ان ٹہنیوں میں ہریالی رہے گی تب تک ان کا عذاب روک دیا جائے گا۔
ورنہ فی نفسہ ٹہنی میں ایسی کوئی طاقت نہیں تھی کہ اس سے قبر کا عذاب ختم ہوجائے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹہنی کو ٹورتے نہیں کیونکہ ٹوڑنے سے تو اس کی ہریالی جلد چلی جاتی ہے ، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کہا کہ جب تک ٹہنی میں ہریا لی رہے گی تب تک عذاب روک دیا جائے گا۔
معلوم ہوا کہ ٹہنی کی وجہ سے عذاب رفع نہیں ہوا تھا بلکہ ٹہنی تو صرف ایک علامت تھی رفع عذاب کی مدت کی ، اور رفع عذاب کی وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت تھی جیساکہ مسلم کی اس حدیث میں صراحت ہے :
إِنِّي مَرَرْتُ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ، فَأَحْبَبْتُ، بِشَفَاعَتِي، أَنْ يُرَفَّهَ عَنْهُمَا[صحيح مسلم 4/ 2307]۔
یعنی دوقبروں کے پاس سے میں گذرا جن کو عذاب ہورہا تھا تو میں نے چاہا کہ میری شفاعت سے ان کے عذاب میں تخفیف ہوجائے۔
معلوم ہوا کہ رفع عذاب کی اصل وجہ شفاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور ٹہنی ایک علامت تھی ، اور صاحب قبر سے رفع عذاب کے لئے ہم دعاء کرسکتے ہیں ، شفاعت نہیں ، شفاعت یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے اور ٹہینی اس کی علامت تھی ، لہٰذا یہ سارا معاملہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہے۔
۔【➋】
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل ایک ایسی قبرکے ساتھ کیا تھا جس قبروالے کی حالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی بتلادی گئی تھی ، کیونکہ قبرکی حالت غیبی امر ہے اورغیبی امور پر آگاہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی ہی ہواکرتی تھی جیسا کے قران وحدیث کے صریح نصوص سے یہ ثابت ہے۔
تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ عمل قبرکی حالت سے آگاہ ہونے کے بعد ہوا تھا تو جو لوگ اس عمل کی نقل کرتے ہیں ،اور قبروں پر ٹہنی یا پھول وغیرہ ڈالتے ہیں کیا انہیں بھی متعلقہ قبرکی غیبی حالت کا علم ہے ؟؟؟ اگرنہیں تو مذکورہ عمل بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مذکورہ عمل قبر کی غیبی حالت سے آگاہی کے بعد ہوا تھا اور یہ کسی غیر نبی کے لئے ممکن ہی نہیںہے۔
۔【➌】
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن قبروں پر ٹہنی گاڑی تھی ، ان قبروالوں کو عذاب ہورہاتھا !!!
اوراس کی وجہ یہ تھی وہ چغلی کرتے تھے اور پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتے تھے!!!!
ایسے لوگوں کی قبر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹہنی گاڑی تھی ، تو کیا آج جن اولیا ء وغیرہ کی قبروں پر مذکورہ حدیث سے استدلال کرتے ہوئے ٹہنی یا پھول وغیرہ رکھے جاتے ہیں کیا یہ بے چارے اولیاء بھی اپنی زندگی میں چغلی کرتے تھے اور انہیں پیشاب کرنے تک کا سلیقہ نہیں تھا؟؟؟؟؟
یہ تو صاحب قبر کی بہت بڑی توہین ہے کہ اس کی قبر کے ساتھ وہ سلوگ کیا جائے جو چغلخور اور گندے لوگوں کی قبرکے ساتھ کیا گیا۔
۔【➍】
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ یا اہل بیت رضی اللہ عنہم کی قبروں کے ساتھ ایسا نہیں کیا ، اورنہ ہی صحابہ کرام سے ایسا ثابت ہے اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ عمل ایک ایسی قبرکے ساتھ خاص تھا جس کے بارے میں بذریعہ وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبتادیا گیا کہ یہ ان چغلخوروں اورگندے لوگوں کو عذاب ہورہا ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شفاعت کردی۔دیگر قبروں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ بتایا گیا اس لئے دیگرقبروں کے ساتھ یہ عمل نہیں ہوا، معلوم ہوا کہ یہ معاملہ ایک واقعہ ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔
ابو عبدالرحمٰن محمد رفیق طاہر عفااللہ عنہ کہتے ہیں ⇓⇓⇓
۔┄┅═══════════════════════
نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں قبروں پر ٹہنی لگائی تھی یہ بات بالکل درست ہے لیکن اس حدیث کے تفصیلی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ
①۔ یہ دونوں شخص مسلمان نہ تھے بلکہ " ماتا فی الجاہلیۃ " جاہلیت میں مرچکے تھے یعنی غیر مسلم تھے (کسی مسلمان کی قبر پر ایسا کرنا ثابت نہیں !)
اور یہ دونوں شخص مسلمان نہ تھے بلکہ " ماتا فی الجاہلیۃ " جاہلیت میں مرچکے تھے یعنی غیر مسلم تھے
اس کی دلیل حدیث سے ثابت ہے
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بارہ میں ایک روایت نقل کی ہے جسکے الفاظ ہیں "ھلکا فی الجاہلیۃ " یہ دونوں زمانہ جاہلیت میں ہلاک ہوگئے تھے ۔
②۔ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم بذریعہ وحی معلوم ہوا کہ انہیں عذاب ہو رہا ہے
③۔ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے انکے عذاب میں تخفیف کی درخواست اللہ کے سامنے پیش فرمائین ( عذاب ختم کرنے کے نہیں ! )
④۔ بذریعہ وحی رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ آپ کی شفاعت ان دونوں کے حق میں قبول کرلی گئی ہے لیکن اس وقت تک اسکا اثر رہے گا جبتک یہ دونوں ٹہنیاں تر رہیں گی ۔
ان باتوں کو ملحوظ رکھ کر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ
①۔ یہ سارا معاملہ وحی پر موقوف تھا اور اب وحی کا سلسلہ بند ہو چکا ہے ۔
②۔ قبر پر قبر بننے کے فورا بعد یہ ٹہنیاں نہیں لگائی گئیں بلکہ جب یہ معلوم ہوا کہ انہیں عذاب ہو رہا ہے تب یہ ٹہنیاں لگائی گئیں , اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی معلوم ہوا تھا جبکہ اب کسی کے بس میں نہیں کہ وہ معلوم کر لے کہ انہیں عذاب ہو رہا ہے کہ نہیں , کیونکہ عذاب کا علم ہونے سے قبل ٹہنیاں لگانا ثابت نہیں !
③۔ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قبول کی گئی اور اسے ٹہنیوں کے تر رہنے تک مؤثر رکھنے کا وعدہ کیا گیا , جبکہ اب کسی کو علم نہیں کہ اسکی دعاء مقبول ہے یا مردود اور نہ ہی کسی کے ساتھ یہ وعدہ ہے !
لہذا ایسا کام کرنا درست وجائز نہیں ۔
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء / جلد : 7 /صفحہ : 450 ⇓⇓⇓
۔┄┅═══════════════════════
جید اور اکابر علماء پر مشتمل سعودی علماء کی کمیٹی (اللجنۃ الدائمۃ ) نے قبروں پر پھول ڈالنے کے مسئلہ پر مفصل فتویٰ دیا
قبر پر پھول یا ہری پتیاں وغیرہ اس عقیدہ سے رکھنا کہ صاحب قبر کے لئے یہ پتیاں سوکھنے تک استغفار کرتی ہیں، یہ سب چیزیں بدعت ہیں، اور شریعت مطہرہ میں اسکی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور مشروع یہ ہے کہ مسلمان میت کے لئے اسکی قبر کے پاس یا کسی بھی جگہ سے استغفار اور دعاء کی جائے، یہی چیزیں اس کو نفع دیں گی،
اور کھجور کی ڈالی یا ہری پتیوں کے قبر پر رکھنے کی مشروعیت پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث: صحيح بخاري، باب الْأَدَبِ، حدیث نمبر 6055، صحيح مسلم، باب الطَّهَارَةِ، حدیث نمبر 292، ترمذي، باب الطَّهَارَةِ، حدیث نمبر 70، نسائي، باب الْجَنَائِزِ، حدیث نمبر 2069، ابو داؤد، باب الطَّهَارَةِ، حدیث نمبر 20، سنن دارمی، باب الطَّهَارَةِ، حدیث نمبر 739.
كہ بے شك نبي صلى الله عليه وسلم کا دو قبروں کے قریب سے گزرہوا، تو آپ نے فرمایا: بے شک ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور ان دونوں کوعذاب کسی بڑے سبب کی وجہ سے نہیں دیا جارہا ہے، بلکہ ان دونوں میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا، اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا، پھر آپ نے کھجور کی تازہ ٹہنی منگوائی، اور اس کے دو ٹکڑے کئے، اور آپ نے ہر ایک قبر پرايک ٹکڑا گاڑ دیا ،اور فرمایا: امید ہے کہ ٹہنیوں کے خشک ہونے تک ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائیگی۔
اس مذکورہ حدیث سے جو لوگ دلیل دیتے ہیں اسکا جواب یہ ہے کہ یہ حادثہ ان دو شخصوں کا عینی خاص واقعہ ہے، اس سے عمومیت کا مفہوم نہ لیا جائے، جسکی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالی نے دی تھی، اور یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، اور اس عمل سے مسلمانوں کی قبرکے سلسلے میں پتیاں رکھنے کے باضابطہ مسنون ہونے پر استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے۔
دیکھیے :اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
بكر أبو زيد ... صالح الفوزان ... عبد الله بن غديان ... عبد العزيز آل الشيخ ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی/ ( جلد 7، صفحہ 450)
فتوی از : فتاویٰ اسلامیہ ⇓⇓⇓
۔┄┅══════════┅┄
طرح قبروں پر املی وغیرہ کا درخت لگانا، جو اور گندم وغیرہ اگانا بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء راشدین رضی اللہ عنھم سے یہ ثابت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ان دو قبروں پر ٹہنیاں گاڑیں،
صحیح بخاری، الجنائز، باب الجریدۃ علی القبر، حدیث: 1361
جن میں مدفون مردوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مطلع فرما دیا تھا، کہ ان کو عذاب ہو رہا ہے، تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ اور یہ عمل انہی دو قبروں کے ساتھ مکصوص تھا کیونکہ ان کے علاوہ اور کسی قبر پر آپ نے کبھی بھی ٹہنی نہیں گاڑی تھی، لہذا مذکورہ بالا حدیث کے پیش نظر مسلمانوں کے لیے دین میں کسی ایسی بات کا ایجاد کرنا جائز نہیں ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہ دیا ہو اور پھر ارشاد باری تعالیٰ بھی ہے:
﴿ أَم لَهُم شُرَكـؤُا۟ شَرَعوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ ﴾
سورة الشورٰى / ٢١
"کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کس اللہ نے حکم نہیں دیا۔۔۔"
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ / جلد : ٢
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Post a Comment