قرآنی تعویذ پہننے والوں کی مثال
بِسْــــــــــــــــــــــ ـمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
✍ تحریر : مسزانصاری
قرآنی آیات اور دعا ماثورہ سے مرتب تعویذ شرک کے زمرے میں نہیں آتے ۔ لیکن اکثر صحابہ کرام اور ان کے بعد کے اہل علم کا خیال ہے کہ قرآن کریم اور ماثور دعاؤں کے تعویذ بھی لٹکانا (پہننا) جائز نہیں، ان میں ابن مسعود، ابن عباس، حذیفہ، عقبہ بن عامر اور ابن حکیم ہیں، نیز ابراہیم نخعی، امام احمد کی ایک روایت، ابن العربی، شیخ عبدالرحمٰن بن حسن آل شیخ، شیخ سلیمان بن عبداللّٰہ بن محمد بن عبدالوہاب، شیخ عبدالرحمٰن بن سعدی، حافظ حکمی اور حامد الفقی ہیں، نیز دورِحاضر کے علما میں سے شیخ البانی اور شیخ عبدالعزیز ابن باز ہیں۔
ان علما کے اقوال و فتاوے مندرجہ ذیل کتابوں میں دیکھے جاسکتے ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الطب:7؍374ومابعد، سنن بیہقی :9؍516ومابعد ، مستدرک حاکم :4؍216ومابعد، تیسیر العزیز الحمید ص 168،174؛ سلسلہ احادیثِ صحیحہ 1؍585؛ القول السدید :ص 38؛ معارج القبول:1؍382؛ فتاویٰ شیخ ابن باز :820
لہٰذا ہمیں صرف دَم پر اکتفا کرنا چاہیے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دَم پر ہی اکتفا کیا ہے تو ہمیں بھی اسی پر اکتفا کرنا چاہیے۔ اور اگر کوئی توحیدی شخص اگر قرآنی تعویذ یا اللہ کے اسماء و صفات پر مشتمل تعویذ لکھتا ہے۔ تو بے شک اس کے اور ہمارے نظریات میں اختلاف ہے ، لیکن وہ مشرک شمار نہیں ہوگا ، نہ اس کے پیچھے نماز چھوڑی جا سکتی ہے۔ لیکن ہاں اس کا عمل فتنوں اور بدعات کا دروازہ کھولنے میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے ، اسلیے علماء و فقہا نے اس سے منع کیا ہے ۔
قرآنی تعویذات پہن کر اس سے شفاء کی امیدیں لگانے والوں کی مثال یہ ہے کہ شرعئی علوم کی سو جلدوں کی گٹھڑی باندھ کر بھی اس پر لاد دیجیے ، اس سے اس کے اندر نہ تو کوئی فلسفیانہ بصیرت پیدا ہو گی اور نہ ہی حکمت اور دانائی کی کوئی بات اسے حاصل ہو گی. یہ مثال ہماری قوم کی ہے جو کتابِ الٰہی کی حامل بنائی گئی تھی اور پھر اس نے اس کتاب کا حق ادا نہ کیا بلکہ اس رشد و ہدایت کی کتاب کو گلوں میں لٹکانے اور بازووں پر باندھنے کی چیز بنا ڈالا ۔
غلط عقائد کو روکنے کے لیے قرآنی تعویذات کی ممانعت مئوثر ہے ۔ اس عمل کو ان صحابہ ، اسلاف اور تابعین نے مکروہ جانا جو اس صاف ستھری فضا میں تھے جہاں سینوں کے کوزے ایمان کے سمندر کو نہ بھر سکتے تھے ، اس مقدس دور کے آہنی اور پہاڑ جیسا ایمان رکھنے والے صالحین نے بھی کبھی تعویذاتِ قرآنی کو لٹکانے کی رغبت نہیں دی ۔
دراصل قرآنی تعویذ کا کاروبار کرنے والے اس رخصت کے چور دروازے سے محرمات تک پہنچ جاتے ہیں اور قرآنی تعویذوں کو ان محرمات کا بہانہ اور ذریعہ بناتے ہیں ، اس میں اپنے شیطانی طلسماتی حروف کے ساتھ کچھ قرآنی آیتیں بھی لکھ دیتے ہیں ، اس سے زیادہ قرآن کی اور کیا توہین ہوگی کہ انہیں پہننے والا ناپاکی کی حالت میں بھی اسے پہنے رہتا ہے، چھوٹی بڑی ہر طرح کی نجاست ہوتی رہتی ہے اور قرآن اس کے ساتھ ہوتا ہے ۔ ربِ کعبہ کی قسم کسی دشمن اسلام نے کتاب اللّٰہ کی ایسی بے حرمتی نہیں کی ہوگی جتنی اسلام کے دعوے دار اہل بدعت و شرک اور ملحد کررہے ہیں
آئیے قرآنی تعویذات کی ممانعت کی چند وجوہات ملاحظہ فرمائیے ۔
◉ یہ کہ اگر تعویذ لٹکانا جائز ہو جائے تو تعوذ کا مسنون طریقہ ختم ہوجائے اور مسلمان قرآن سے بالکل بے تعلق و بے نیاز ہوجائیں گے۔
◉ یہ کہ اگر یہ مشروع عمل سے ہوتا تو نبی کریمﷺ کی قولی فعلی احادیث سے ثابت ہوتا ، جیسا کہ رُقیہ یعنی دعا پڑھ کر پھونکنے کا حکم شرعئی نصوص سے ثابت ہے جسے شرکیہ کلام نہ ہونے کی صورت میں اس کی اجازت دی ہے، چنانچہ فرمایا :
«اعْرِضُوا عَلَىَّ رُقَاكُمْ لاَ بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ
مسلم مع نووی، کتاب السلام، باب لاباس بالرقی مالم یکن فیہ شرک : 14؍187
’’تم لوگ مجھے اپنے جھاڑ پھونک کے کلمات سناؤ، اگر اس میں شرک نہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘
لیکن اس طرح کی بات نبیﷺ نے تعویذوں کے بارے میں نہیں کہی (لہٰذا معلوم ہوا کہ کسی بھی طرح کا تعویذ جائز نہیں)
◉ یہ کہ جیسا کہ شرعئی راہ سے فتنہ و فساد کا سدِباب واجب ہے، تاکہ شرکیہ تعویذ ، قرآنی تعویذوں کے ساتھ اس حد تک خلط ملط نہ ہوجائیں کہ شبہ کی وجہ سے شرکیہ تعویذوں سے بھی روکنا مشکل ہوجائے
◉ یہ کہ لوگوں کا قرآن اُٹھائے پھرنا اس بابرکت کتاب کے لیے ایک امرِ توہین ہے جو لوگ نہ اس کا معنی سمجھتے ہیں نہ ہی اس کی عزت کرتے ہیں محض شفاء کی امید پر اسے گلوں میں لٹکائے پھرتے ہیں، وہ لوگ اللّٰہ تعالیٰ کے اس فرمان عام ﴿كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا١ؕ ﴾ کے تحت آجاتے ہیں (جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی مثال ان گدھوں کی ہے جو شریعت کی کتاب اٹھائے ہوئے ہیں، نہ اسے سمجھتے ہیں، نہ ہی اس پر عمل کرتے ہیں) کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ اس قرآنی تعویذ میں کیا ہے
◉ یہ کہ معوذات ( سورةالفلق اور سورةالنّاس ) کے ذریعہ دم و دعا کی سنت ترک کردی جائے گی ، جو لوگ قرآنی آیات کو گلوں میں لٹکاتے ہیں تو انہیں یہ لٹکائی ہوئی آیات ہرگز بھلائی نہ پہنچائیں گی ، اگر ان لٹکی ہوئی آیات سے شفاء حاصل ہو سکتی تو جو شخص پورا پورا قرآن ہی لٹکالے گا، وہ گمان کرسکتا ہے کہ اب معوذات اور آیۃ الکرسی وغیرہ پڑھنے کی کیا ضرورت ہے، جب پورا قرآن اپنے گلے میں لٹکا ہوا ہے۔
خوب جان لیجیے کہ قرآن تعویذات بنا کر لٹکانے کے لیے نازل نہیں ہوا ، یہ سراسر رشد و ہدایت ہے ، قاری کے لیے شفاء ہے ، اس کا نزول اسے سمجھ کر پڑھنے کے لیے ہے ، اس پر عمل کرنا ، اس کے اوامر و نواہی کو بجا لانا ، اسکی اطاعت کرنا اور اس کی باتوں کی تصدیق کرنا اور اسکی مثالوں اور قصائص سے عبرت پکڑنا ہی دراصل اسکا حق ادا کرنا ہے ۔ یہ ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے، لیکن اسے تعویذوں میں استعمال کرنے والوں نے ان سارے مقاصد کو بے معنی کردیا اور اسکے اصل مقصد کو پس پشت ڈال دیا ۔
وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ․
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
✍ تحریر : مسزانصاری
قرآنی آیات اور دعا ماثورہ سے مرتب تعویذ شرک کے زمرے میں نہیں آتے ۔ لیکن اکثر صحابہ کرام اور ان کے بعد کے اہل علم کا خیال ہے کہ قرآن کریم اور ماثور دعاؤں کے تعویذ بھی لٹکانا (پہننا) جائز نہیں، ان میں ابن مسعود، ابن عباس، حذیفہ، عقبہ بن عامر اور ابن حکیم ہیں، نیز ابراہیم نخعی، امام احمد کی ایک روایت، ابن العربی، شیخ عبدالرحمٰن بن حسن آل شیخ، شیخ سلیمان بن عبداللّٰہ بن محمد بن عبدالوہاب، شیخ عبدالرحمٰن بن سعدی، حافظ حکمی اور حامد الفقی ہیں، نیز دورِحاضر کے علما میں سے شیخ البانی اور شیخ عبدالعزیز ابن باز ہیں۔
ان علما کے اقوال و فتاوے مندرجہ ذیل کتابوں میں دیکھے جاسکتے ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الطب:7؍374ومابعد، سنن بیہقی :9؍516ومابعد ، مستدرک حاکم :4؍216ومابعد، تیسیر العزیز الحمید ص 168،174؛ سلسلہ احادیثِ صحیحہ 1؍585؛ القول السدید :ص 38؛ معارج القبول:1؍382؛ فتاویٰ شیخ ابن باز :820
لہٰذا ہمیں صرف دَم پر اکتفا کرنا چاہیے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دَم پر ہی اکتفا کیا ہے تو ہمیں بھی اسی پر اکتفا کرنا چاہیے۔ اور اگر کوئی توحیدی شخص اگر قرآنی تعویذ یا اللہ کے اسماء و صفات پر مشتمل تعویذ لکھتا ہے۔ تو بے شک اس کے اور ہمارے نظریات میں اختلاف ہے ، لیکن وہ مشرک شمار نہیں ہوگا ، نہ اس کے پیچھے نماز چھوڑی جا سکتی ہے۔ لیکن ہاں اس کا عمل فتنوں اور بدعات کا دروازہ کھولنے میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے ، اسلیے علماء و فقہا نے اس سے منع کیا ہے ۔
قرآنی تعویذات پہن کر اس سے شفاء کی امیدیں لگانے والوں کی مثال یہ ہے کہ شرعئی علوم کی سو جلدوں کی گٹھڑی باندھ کر بھی اس پر لاد دیجیے ، اس سے اس کے اندر نہ تو کوئی فلسفیانہ بصیرت پیدا ہو گی اور نہ ہی حکمت اور دانائی کی کوئی بات اسے حاصل ہو گی. یہ مثال ہماری قوم کی ہے جو کتابِ الٰہی کی حامل بنائی گئی تھی اور پھر اس نے اس کتاب کا حق ادا نہ کیا بلکہ اس رشد و ہدایت کی کتاب کو گلوں میں لٹکانے اور بازووں پر باندھنے کی چیز بنا ڈالا ۔
غلط عقائد کو روکنے کے لیے قرآنی تعویذات کی ممانعت مئوثر ہے ۔ اس عمل کو ان صحابہ ، اسلاف اور تابعین نے مکروہ جانا جو اس صاف ستھری فضا میں تھے جہاں سینوں کے کوزے ایمان کے سمندر کو نہ بھر سکتے تھے ، اس مقدس دور کے آہنی اور پہاڑ جیسا ایمان رکھنے والے صالحین نے بھی کبھی تعویذاتِ قرآنی کو لٹکانے کی رغبت نہیں دی ۔
دراصل قرآنی تعویذ کا کاروبار کرنے والے اس رخصت کے چور دروازے سے محرمات تک پہنچ جاتے ہیں اور قرآنی تعویذوں کو ان محرمات کا بہانہ اور ذریعہ بناتے ہیں ، اس میں اپنے شیطانی طلسماتی حروف کے ساتھ کچھ قرآنی آیتیں بھی لکھ دیتے ہیں ، اس سے زیادہ قرآن کی اور کیا توہین ہوگی کہ انہیں پہننے والا ناپاکی کی حالت میں بھی اسے پہنے رہتا ہے، چھوٹی بڑی ہر طرح کی نجاست ہوتی رہتی ہے اور قرآن اس کے ساتھ ہوتا ہے ۔ ربِ کعبہ کی قسم کسی دشمن اسلام نے کتاب اللّٰہ کی ایسی بے حرمتی نہیں کی ہوگی جتنی اسلام کے دعوے دار اہل بدعت و شرک اور ملحد کررہے ہیں
آئیے قرآنی تعویذات کی ممانعت کی چند وجوہات ملاحظہ فرمائیے ۔
◉ یہ کہ اگر تعویذ لٹکانا جائز ہو جائے تو تعوذ کا مسنون طریقہ ختم ہوجائے اور مسلمان قرآن سے بالکل بے تعلق و بے نیاز ہوجائیں گے۔
◉ یہ کہ اگر یہ مشروع عمل سے ہوتا تو نبی کریمﷺ کی قولی فعلی احادیث سے ثابت ہوتا ، جیسا کہ رُقیہ یعنی دعا پڑھ کر پھونکنے کا حکم شرعئی نصوص سے ثابت ہے جسے شرکیہ کلام نہ ہونے کی صورت میں اس کی اجازت دی ہے، چنانچہ فرمایا :
«اعْرِضُوا عَلَىَّ رُقَاكُمْ لاَ بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ
مسلم مع نووی، کتاب السلام، باب لاباس بالرقی مالم یکن فیہ شرک : 14؍187
’’تم لوگ مجھے اپنے جھاڑ پھونک کے کلمات سناؤ، اگر اس میں شرک نہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘
لیکن اس طرح کی بات نبیﷺ نے تعویذوں کے بارے میں نہیں کہی (لہٰذا معلوم ہوا کہ کسی بھی طرح کا تعویذ جائز نہیں)
◉ یہ کہ جیسا کہ شرعئی راہ سے فتنہ و فساد کا سدِباب واجب ہے، تاکہ شرکیہ تعویذ ، قرآنی تعویذوں کے ساتھ اس حد تک خلط ملط نہ ہوجائیں کہ شبہ کی وجہ سے شرکیہ تعویذوں سے بھی روکنا مشکل ہوجائے
◉ یہ کہ لوگوں کا قرآن اُٹھائے پھرنا اس بابرکت کتاب کے لیے ایک امرِ توہین ہے جو لوگ نہ اس کا معنی سمجھتے ہیں نہ ہی اس کی عزت کرتے ہیں محض شفاء کی امید پر اسے گلوں میں لٹکائے پھرتے ہیں، وہ لوگ اللّٰہ تعالیٰ کے اس فرمان عام ﴿كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا١ؕ ﴾ کے تحت آجاتے ہیں (جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی مثال ان گدھوں کی ہے جو شریعت کی کتاب اٹھائے ہوئے ہیں، نہ اسے سمجھتے ہیں، نہ ہی اس پر عمل کرتے ہیں) کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ اس قرآنی تعویذ میں کیا ہے
◉ یہ کہ معوذات ( سورةالفلق اور سورةالنّاس ) کے ذریعہ دم و دعا کی سنت ترک کردی جائے گی ، جو لوگ قرآنی آیات کو گلوں میں لٹکاتے ہیں تو انہیں یہ لٹکائی ہوئی آیات ہرگز بھلائی نہ پہنچائیں گی ، اگر ان لٹکی ہوئی آیات سے شفاء حاصل ہو سکتی تو جو شخص پورا پورا قرآن ہی لٹکالے گا، وہ گمان کرسکتا ہے کہ اب معوذات اور آیۃ الکرسی وغیرہ پڑھنے کی کیا ضرورت ہے، جب پورا قرآن اپنے گلے میں لٹکا ہوا ہے۔
خوب جان لیجیے کہ قرآن تعویذات بنا کر لٹکانے کے لیے نازل نہیں ہوا ، یہ سراسر رشد و ہدایت ہے ، قاری کے لیے شفاء ہے ، اس کا نزول اسے سمجھ کر پڑھنے کے لیے ہے ، اس پر عمل کرنا ، اس کے اوامر و نواہی کو بجا لانا ، اسکی اطاعت کرنا اور اس کی باتوں کی تصدیق کرنا اور اسکی مثالوں اور قصائص سے عبرت پکڑنا ہی دراصل اسکا حق ادا کرنا ہے ۔ یہ ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے، لیکن اسے تعویذوں میں استعمال کرنے والوں نے ان سارے مقاصد کو بے معنی کردیا اور اسکے اصل مقصد کو پس پشت ڈال دیا ۔
وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ․
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Post a Comment