قبر والی مسجد میں نماز کیلیے نبیﷺ کی قبر سےاستدلال
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
┄┅════════════⚜⚜⚜════════════┅┄
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
┄┅════════════⚜⚜⚜════════════┅┄
●═┅قبر والی مسجد میں نماز کیلیے نبیﷺ کی قبر سےاستدلال ┅·•═●
┄┅════════════════════════┅┄
┄┅════════════════════════┅┄
مسجد نبوی ﷺ کو نبی کریمﷺ نے اللہ کے تقویٰ اور اس کی رضا کی بنیادوں پر تعمیر فرمایا تھا اور آپ کی وفات کے بعد آپ کو اس مسجد میں دفن نہیں کیا گیا تھا۔بلکہ آپ ﷺ کی تدفین تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہا کے حجرہ میں عمل میں آئی تھی۔ آپﷺ کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ کا انتقال ہوا تو انھیں بھی آپ کے ساتھ حجرہ میں دفن کیا گیا تھا اور پھر جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ کا انتقال ہوا تو انھیں بھی حجرہ میں دفن کیا گیا تھا۔اور اس وقت حجرہ نبوی میں شامل نہ تھا بلکہ اسے خلفاء راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین کے دور کے بعد مسجد میں داخل کیا گیالہذا اس مسجد میں نماز کی شرعی طور پر نہ یہ کہ صرف اجازت ہے۔ بلکہ مسجد حرام کے بعد اس میں نماز سب سے افضل اور دیگر مسجدوں میں پڑھی گئی تو ایک ہزار نمازوں سے بہتر ہے۔اس کے برعکس ایک ایسی مسجد جسے کسی قبر یا قبروں پر تعمیر کیا گیا ہو یا اس میں میت کو دفن کیا گیا ہو تو اس میں نماز پڑھنا حرام ہے۔
دیکھیے : فتاوی بن باز رحمہ اللہ/جلددوم
بحوث العلمیۃ والافتاء کی فتویٰ کمیٹی
دیکھیے : فتاوی بن باز رحمہ اللہ/جلددوم
بحوث العلمیۃ والافتاء کی فتویٰ کمیٹی
●═┅┄ کیاقبروں والی مساجد گرادی جائیں گی ؟ ┄┅·•═●
┄┅════════════════════════┅┄
┄┅════════════════════════┅┄
جب کسی ایک یا زیادہ قبروں پر کوئی مسجد بنالی جائے تو اس کا گرادینا واجب ہے۔کیونکہ اسے خلاف شریعت تعمیر کیا گیا ہے۔اسے باقی رکھنا اور اس میں نماز پڑھنا گناہ پر اصرار ہے۔غلو فی الدین اور جس کی قبر پر مسجد بنائی گئی ہے۔اس کی تعظیم میں اضافہ ہے۔اور یہ شرک کا زریعہ ہے۔
والعیاذ باللہ ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے۔:
والعیاذ باللہ ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے۔:
﴿يـأَهلَ الكِتـبِ لا تَغلوا فى دينِكُم...١٧١﴾... سورة النساء
‘‘اے اہل کتاب اپنے دین(کی بات)میں حد سے نہ بڑھو۔’’
‘‘اے اہل کتاب اپنے دین(کی بات)میں حد سے نہ بڑھو۔’’
اورنبی کریمﷺکا بھی فرمان ہے کہ
ايا كم والغلو فانما اهلك من كان قبلكم الغلو
(احمد فی المسند 1/374 والحاکم فی المستدرک 1/466 وابن ماجہ فی السنن رقم : 3029)
‘‘دین میں غلو سے بچو کیونکہ پہلے لوگوں کو دین میں غلو ہی نے تباہ وبربادکردیا تھا’’
(احمد فی المسند 1/374 والحاکم فی المستدرک 1/466 وابن ماجہ فی السنن رقم : 3029)
‘‘دین میں غلو سے بچو کیونکہ پہلے لوگوں کو دین میں غلو ہی نے تباہ وبربادکردیا تھا’’
مسجد اگر قبر پر نہ بنائی گئی ہو بلکہ بعدمیں میت کومسجد میں دفن کیا گیا ہو تو اس صورت میں مسجد کو نہیں گرایا جائے گا۔بلکہ میت کو قبر سے نکال کر باہر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔کیونکہ اس کامسجد میں دفن کیا جانا ایک منکر بات ہے اور اس منکر کے ازالہ کی صرف یہی صورت ہے۔ کہ اسے قبر سے نکال کر قبرستان میں دفن کردیا جائے۔
دیکھیے : فتاوی بن باز رحمہ اللہ/جلددوم
بحوث العلمیۃ والافتاء کی فتویٰ کمیٹی
دیکھیے : فتاوی بن باز رحمہ اللہ/جلددوم
بحوث العلمیۃ والافتاء کی فتویٰ کمیٹی
●═┅ اگر محلہ میں قبروالی مسجدکےعلاوہ کوئی مسجد نہ ہو ┅·•═●
┄┅════════════════════════┅┄
┄┅════════════════════════┅┄
اگر صورتحال یہ ہو کہ محلے میں یا دور کوئی سہل توحید کی مسجد نہ ہو سوائے قبروں والی مسجد کے تو اس صورت میں فرض نماز تو گھر میں ادا نہیں کی جائے گی البتہ چاہیے کہ اپنے بعض مسلمان بھایئوں کےساتھ مل کر باجماعت ادا کرلی جائے ، اور کسی ایسی مسجد میں ادا کی جائے جسے قبر پر نہ بنایا گیا ہو خواہ کھلی جگہ ہی پڑھی جائے ، اور لوگوں کو چاہیے کہ اللہ کے حکم کے مطابق ایک مسجد بنایئں تاکہ اس میں باجماعت نماز پنجگانہ ادا کرسکیں۔نصوص شریعت ک مطابق عمل کرسکیں اور جس سے اللہ تعالیٰ ٰ نے منع فرمایا ہے۔اس سے باز رہ سکیں۔
دیکھیے : فتاوی بن باز رحمہ اللہ/جلددوم
بحوث العلمیۃ والافتاء کی فتویٰ کمیٹی
بحوث العلمیۃ والافتاء کی فتویٰ کمیٹی
●═┅ پرانی مسجد کے پتھروں کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ┅·•═●
┄┅════════════════════════┅┄
┄┅════════════════════════┅┄
جب کوئی مسجد سیلاب یا دیگر اسباب کی وجہ سے خراب ہو جائے تو اہل محلہ کے لیے حکم شریعت یہ ہے کہ اس مسجد کو دوبارہ تعمیر کریں اور اس میں اقامت نماز کا اہتمام کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
(من بني لله مسجدا بني الله له بيتا في الجنة)
(صحيح ابن خزيمة: 2/268‘ ح: 1291 واصله في الصحيحين انظر صحيح البخاري‘ ح:450 وصحيح مسلم‘ ح: 533)
(صحيح ابن خزيمة: 2/268‘ ح: 1291 واصله في الصحيحين انظر صحيح البخاري‘ ح:450 وصحيح مسلم‘ ح: 533)
" جو شخص اللہ کے لیے مسجد بنائے گا، اللہ تعالیٰ اس کا گھر جنت میں بنائے گا۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
(امر رسول الله صلي الله عليه وسلم ببناء المساجد في الدور‘ وان تنظف وتطيب)
(مسند احمد : 6/279 وسنن ابي داود‘ الصلاة‘ باب اتخاذ المساجد في الدور‘ ح: 455)
" نبی کریمﷺ نے محلوں میں مسجدیں بنانے، انہیں صاف ستھرا رکھنے اور خوشبو لگانےکا حکم دیا ہے۔"
(مسند احمد : 6/279 وسنن ابي داود‘ الصلاة‘ باب اتخاذ المساجد في الدور‘ ح: 455)
" نبی کریمﷺ نے محلوں میں مسجدیں بنانے، انہیں صاف ستھرا رکھنے اور خوشبو لگانےکا حکم دیا ہے۔"
اس حدیث میں "دور" کے لفظ سے مراد قبائل اور محلے وغیرہ ہیں۔ مساجد تعمیر کرنے کی فضیلت کے بارے میں اور بھی بہت سی احادیث ہیں۔ اگر محلہ میں کوئی اور مسجد ہو جس کی وجہ سے اس کی ضرورت نہ رہی ہو تو پھر اس مسجد کی اینٹیں اور پتھر کسی دوسرے محلہ یا شہر کی ضرورت مند مسجد کے لیے استعمال کیے جائیں۔
ایسی مسجد جس شہر میں ہے اس کے حاکم، قاضی امیر یا سردار قبیلہ پر فرض ہے کہ وہ اس طرف توجہ دے اور اس کے پتھروں کو دیگر ضرورت والی مساجد میں منتقل کر دے یا انہیں بیچ کر ان کی قیمت کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں پر صرف کر دے۔ اہل شہر میں سے کسی کو اس بات کا حق نہیں ہے کہ حاکم کی اجازت کے بغیر اس مسجد کی کسی چیز کو اپنے ذاتی استعمال میں لائےاگراس مسجد میں کوئی قبر ہے تو پھر ضروری ہے کہ اس قبر کو یہاں سے ہٹا دیا جائے اور اس میں موجود ہڈیوں کو۔۔۔ اگر وہ موجود ہوں۔۔۔ شہر کے قبرستان میں دفن کر دیا جائے کیونکہ شرعا یہ جائز نہیں ہے کہ مسجدوں میں قبریں ہوں اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ قبروں پر مسجدیں بنائی جائیں کیونکہ یہ شرک کا ذریعہ اور قبروں کی وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہونے کا سبب ہے جیسا کہ اصحاب قبور کے بارےمیں غلو سے کام لینے کی وجہ سے صدیوں سے اکثر مسلمان ممالک میں ایسا ہو رہا ہے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قبروں کے اکھاڑ پھینکنے کا حکم دیا تھا جو اس جگہ موجود تھیں، جہاں مسجد نبوی تعمیر کی گئی۔
( صحيح بخاري‘ الصلاة‘ باب هل نبثت قبور مشركي الجاهلية‘ حديث: 428 وصحيح مسلم‘ المساجد‘ باب ابتناء مسجد النبي صلي الله عليه وسلم‘ حديث: 524) صحیحین میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایسی مسجد جس شہر میں ہے اس کے حاکم، قاضی امیر یا سردار قبیلہ پر فرض ہے کہ وہ اس طرف توجہ دے اور اس کے پتھروں کو دیگر ضرورت والی مساجد میں منتقل کر دے یا انہیں بیچ کر ان کی قیمت کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں پر صرف کر دے۔ اہل شہر میں سے کسی کو اس بات کا حق نہیں ہے کہ حاکم کی اجازت کے بغیر اس مسجد کی کسی چیز کو اپنے ذاتی استعمال میں لائےاگراس مسجد میں کوئی قبر ہے تو پھر ضروری ہے کہ اس قبر کو یہاں سے ہٹا دیا جائے اور اس میں موجود ہڈیوں کو۔۔۔ اگر وہ موجود ہوں۔۔۔ شہر کے قبرستان میں دفن کر دیا جائے کیونکہ شرعا یہ جائز نہیں ہے کہ مسجدوں میں قبریں ہوں اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ قبروں پر مسجدیں بنائی جائیں کیونکہ یہ شرک کا ذریعہ اور قبروں کی وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہونے کا سبب ہے جیسا کہ اصحاب قبور کے بارےمیں غلو سے کام لینے کی وجہ سے صدیوں سے اکثر مسلمان ممالک میں ایسا ہو رہا ہے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قبروں کے اکھاڑ پھینکنے کا حکم دیا تھا جو اس جگہ موجود تھیں، جہاں مسجد نبوی تعمیر کی گئی۔
( صحيح بخاري‘ الصلاة‘ باب هل نبثت قبور مشركي الجاهلية‘ حديث: 428 وصحيح مسلم‘ المساجد‘ باب ابتناء مسجد النبي صلي الله عليه وسلم‘ حديث: 524) صحیحین میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لعن الله اليهود والنصاري التخذوا قبور انبيائهم مساجد)
(صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب ما يكره من اتخاذ المساجد علي القبور‘ ح: 1230 وصحيح مسلم‘ المساجد‘ باب النهي عن بناء المسجد علي القبور...االخ‘ ح:529)
"اللہ تعالیٰ یہودو نصاری پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا تھا۔"
(صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب ما يكره من اتخاذ المساجد علي القبور‘ ح: 1230 وصحيح مسلم‘ المساجد‘ باب النهي عن بناء المسجد علي القبور...االخ‘ ح:529)
"اللہ تعالیٰ یہودو نصاری پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا تھا۔"
صحیح مسلم میں ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لا تصلوا الي القبور‘ ولا تجلسوا عليها)
(صحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب النهي عن الجلوس علي القبر والصلاة عليه‘ ح: 972)
"قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو اور نہ ان پر بیٹحو۔"
(صحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب النهي عن الجلوس علي القبر والصلاة عليه‘ ح: 972)
"قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو اور نہ ان پر بیٹحو۔"
صحیح مسلم ہی میں جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"الا وان من كان قبلكم كانوا يتخذون قبور انبيائهم وصاليه مساجد‘ الا فلا تتخذوا القبور مساجد‘ اني انهاكم عن ذلك) (صحيح مسلم‘ المساجد‘ باب النهي عن بناء المساجد علي القبور... الخ‘ ح:532)
"تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء و صلحا کی قبروں کو مسجدین بنا لیتے تھے، خبردار تم قبروں کو مسجدیں نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔"
"تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء و صلحا کی قبروں کو مسجدین بنا لیتے تھے، خبردار تم قبروں کو مسجدیں نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔"
صحیحین میں حضرت ام سلمہ اور حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنھن سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک گرجے کا ذکر کیا جو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا اور اس میں بنی ہوئی تصویروں کو بھی دیکھا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اولئك اذا مات منهم الرجل الصالح بنوا علي قبره مسجدا وصوروا فيه تلك الصور اولئك شرار الخلق عندالله) (صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب بناء المسجد علي المسجد‘ ح:428‘ 1341 وصحيح مسلم‘ المساجد‘ باب النهي عن بناء المسجد علي القبور‘ ح:528)
" ان لوگوں میں سے جب کوئی نیک آدمی فوت ہوتا تو یہ اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اور اس میں اس طرح کی تصوریں بناتے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں ساری مخلوق میں سے بدترین شمار ہوتے ہیں۔"
" ان لوگوں میں سے جب کوئی نیک آدمی فوت ہوتا تو یہ اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اور اس میں اس طرح کی تصوریں بناتے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں ساری مخلوق میں سے بدترین شمار ہوتے ہیں۔"
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
(نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم ‘ ان يجصص القبر‘ وان يقعد عليه وان يبني عليه) (صحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب النهي عن تجصيص القبر... الخ‘ ح: 970)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ قبر کو پختہ بنایا جائے، اس پر بیٹھا جائے اور اس پر عمارت (مقبرہ وغیرہ) بنائی جائے۔"
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ قبر کو پختہ بنایا جائے، اس پر بیٹھا جائے اور اس پر عمارت (مقبرہ وغیرہ) بنائی جائے۔"
اور صحیح سند کے ساتھ ترمذی کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے:
( وان يكتب عليها)
(جامع الترمذي‘ الجنائز‘ باب ما جاء في كراهية تجصيص القبور‘ ح: 1052)
"آپ نے قبروں پر لکھنے سے بھی منع فرمایا۔"
(جامع الترمذي‘ الجنائز‘ باب ما جاء في كراهية تجصيص القبور‘ ح: 1052)
"آپ نے قبروں پر لکھنے سے بھی منع فرمایا۔"
یہ اور اس مضمون کی دیگر احادیث اس بات پر دلالت کر رہی ہیں کہ قبروں پر عمارتیں بنانا، مسجدیں بنانا، ان میں نماز پڑھنا اور قبروں کو پختہ بنانا حرام ہے کیونکہ یہ اصحاب قبور کے ساتھ شرک کے اسباب میں سے ہے۔ اسی طرح قبروں پر غلاف اور چادریں چڑھانا، ان پر لکھنا، ان پر خوشبو لگانا اور عود سلگانا بھی اسی قبیل سے ہے، کیونکہ یہ سب کچھ غلو اور شرک کے اسباب و وسائل میں سے ہے۔ لہذا تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ خود بھی ان تمام کاموں سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں، خصوصا حکمرانوں کو اس طرف ضرور توجہ دینی چاہیے، کیونکہ ان کے فرائض اور ذمہ داریاں دوسروں سے کہیں بڑھ کر ہیں کیونکہ انہیں ان منکرات کا ازالہ کی زیادہ قوت و طاقت حاصل ہے۔ حکمرانوں کی سستی اور بہت سے اہل علم کی خاموشی ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمان ممالک میں ان خرابیوں کی اس قدر کثرت ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرک کی خوب گرم بازاری ہے اور آج مسلمان بھی اسی طرح شرک میں مبتلا ہو گئے ہیں جس طرح لات، عزٰی اور منات کے پجاری، اہل جاہلیت مبتلا تھے اور سلمان بھی آج وہی بات کہتے ہیں جو اہل بیت کہتے تھے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں ان کا قول نقل فرمایا ہے (وہ کہا کرتے تھے) :
﴿هـؤُلاءِ شُفَعـؤُنا عِندَ اللَّهِ...١٨﴾
سورة يونس
"یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔"
سورة يونس
"یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔"
اور فرمایا:
﴿ما نَعبُدُهُم إِلّا لِيُقَرِّبونا إِلَى اللَّهِ زُلفى...٣﴾... سورة الزمر
"ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہم کو اللہ کا مقرب بنا دیں۔"
"ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہم کو اللہ کا مقرب بنا دیں۔"
اہل علم نے ذکر فرمایا ہے کہ اگر قبر مسجد میں بنائی گئی ہو تو اس قبر کو اکھاڑنا اور مسجد سے دور کرنا ضروری ہے اور اگر مسجد بعد میں بنائی گئی ہو تو اس مسجد کو منہدم کر دینا ضروری ہے کیونکہ یہ مسجد ایک امر منکر کا باعث بنی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو قبروں پر مسجدیں بنانے سے منع فرمایا ہے۔ اس وجہ سے یہود و نصاری پر لعنت کی اور امت کو ان کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے اور آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے ہوئے فرمایا تھا:
(لا تدع صورة الا طمستها ولا قبرا مشرفا الا سويته) (صحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب الامر بتسوية القبر‘ ح:969)
"جو تصویر دیکھو اسے مٹا دو اور اونچی قبر دیکھو اسے برابر کر دو۔"
اللہ تعالیٰ ہی سے دعا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کے حالات کو درست فرمائے، انہیں دین کی سمجھ بوجھ عطا فرمائے، قائدین کی اصلاح فرمائے، مسلمانوں کو تقویٰ کی بنیاد پر جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائے، شریعت کے مطابق حکومت چلانے کی توفیق سے نوازے اور مخالف شریعت امور سے بچائے۔
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ/ جلد : ٢
اللہ تعالیٰ ہی سے دعا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کے حالات کو درست فرمائے، انہیں دین کی سمجھ بوجھ عطا فرمائے، قائدین کی اصلاح فرمائے، مسلمانوں کو تقویٰ کی بنیاد پر جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائے، شریعت کے مطابق حکومت چلانے کی توفیق سے نوازے اور مخالف شریعت امور سے بچائے۔
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ/ جلد : ٢
┄┅════════════⚜⚜⚜════════════┅┄
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Post a Comment