وَعَلَيــْـــــــكُم السَّــــــــلاَم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
اول:
حمل ضائع كرانا جائز نہيں، اس ليے اگر حمل ہو چكا ہو تو اس كى حفاظت اور خيال ركھنا واجب ہے، اور ماں كے ليے اس حمل كو نقصان اور ضرر دينا، اور اسے كسى بھى طرح سے تنگ كرنا حرام ہے، كيونكہ اللہ تعالى نے اس كے رحم ميں يہ امانت ركھى ہے، اور اس حمل كا بھى حق اس ليے اس كے ساتھ ناروا سلوك اختيار كرنا، يا اسے نقصان اور ضرر دينا، يا اسے ضائع و تلف كرنا جائز نہيں.
اور پھر حمل كے ضائع اور اسقاط كى حرمت پر شرعى دلائل بھى دلالت كرتے ہيں:
اور آپريشن كے بغير ولادت كوئى ايسا سبب نہيں جو اسقاط حمل كے جواز كا باعث ہو، بلكہ بہت سى عورتوں كے ہاں ولادت تو آپريشن كے ذريعہ ہى ہوتى ہے، تو اسقاط حمل كے ليے يہ عذر نہيں ہو سكتا.
دوم:
اگر اس حمل ميں روح پھونكى جا چكى ہو، اور اس ميں حركت ہونے كے بعد اسقاط حمل كيا جائے اور بچہ مر جائے تو يہ ايك جان كو قتل كرنا شمار كيا جائيگا، اور اسقاط حمل كرانے والى عورت كے ذمہ كفارہ ہو گا جو كہ يہ ہے:
ايك غلام آزاد كرنا ہے، اگر وہ غلام نہ پائے تو مسلسل دو ماہ كے روزے ركھنا اس كى توبہ شمار ہو گى، اور يہ اس وقت ہے جب حمل چار ماہ كا ہو چكا ہو، كيونكہ اس ميں اس وقت روح پھونكى جا چكى ہوتى ہے، اس ليے اگر اس مدت كے بعد اسقاط حمل كرائے تو اس پر كفارہ لازم آئيگا، جيسا كہ ہم نے بيان كيا ہے، اور يہ معاملہ بہت عظيم ہے اس ميں تساہل اور سستى كرنى جائز نہيں.
اور اگر بيمارى كى بنا پر وہ حمل برداشت نہيں كر سكتى تو وہ حمل سے قبل ہى مانع حمل ادويات كا استعمال كرے، مثلا وہ ايسى گولياں استعمال كر لے جو كچھ مدت تك حمل كے ليے مانع ہوتى ہيں، تا كہ اس عرصہ كے دوران اس كى صحت اور قوت بحال ہو جائے.
ديكھيے : المنتقى ( 5 / 301 - 302 )
کبار علماء کی کمیٹی سے سوال کیا گیا :
ابتدائي ( ایک سے تین ماہ ) مہینوں اوربچے میں روح ڈالے جانے سے قبل اسقاط حمل کا حکم کیا ہے ؟
کبارعلماء کمیٹی نے مندرجہ ذيل فیصلہ کیا :
1 - مختلف مراحل میں اسقاط حمل جائز نہيں لیکن کسی شرعی سبب اوروہ بھی بہت ہی تنگ حدود میں رہتے ہوئے ۔
2 - جب حمل پہلے مرحلہ میں ہوجوکہ چالیس یوم ہے اوراسقاط حمل میں کوئي شرعی مصلحت ہویا پھر کسی ضررکودورکرنا مقصود ہوتواسقاط حمل جائز ہے ، لیکن اس مدت میں تربیت اولاد میں مشقت یا ان کے معیشت اورخرچہ پورا نہ کرسکنے کےخدشہ کے پیش نظر یا ان کے مستقبل کی وجہ سے یا پھر خاوند بیوی کے پاس جواولاد موجود ہے اسی پراکتفا کرنے کی بنا پراسقاط حمل کروانا جائز نہيں ۔
3 - جب مضغہ اورعلقہ ( یعنی دوسرے اورتیسرے چالیس یوم ) ہوتواسقاط حمل جائز نہيں لیکن اگر میڈیکل بورڈ یہ فیصلہ کرے کہ حمل کی موجودگي ماں کے لیے جان لیوا ہے اوراس کی سلامتی کے لیے خطرہ کا باعث ہے توپھر بھی اس وقت اسقاط حمل جائز ہوگا جب ان خطرات سے نپٹنے کے لیے سارے وسائل بروے کارلائيں جائيں لیکن وہ کارآمد نہ ہوں
4 - حمل کے تیسرے مرحلے اورچارماہ مکمل ہوجانے کے بعد اسقاط حمل حلال نہیں ہے لیکن اگر تجربہ کاراورماہر ڈاکٹر یہ فیصلہ کریں کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی موجودگی ماں کی موت کا سبب بن سکتی ہے ، اوراس کی سلامتی اورجان بچانے کے لیے سارے وسائل بروئے کارلائے جاچکے ہوں ، تواس حالت میں اسقاط حمل جائز ہوگا ۔
ان شروط کے ساتھ اسقاط حمل کی اجازت اس لیے دی گئي ہے کہ بڑے نقصان سے بچا جاسکے اورعظیم مصلحت کوپایا جاسکے .
ماخذ : فتاوی الجامعۃ ( 3 / 1056 )
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص نے اپنى بيوى كو كہا: اپنا حمل گرا دو اس كا گناہ ميرے ذمہ، تو اگر وہ اس كى بات سن كر اس پر عمل كر لے تو ان دونوں پر كيا كفارہ واجب ہو گا ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
اگر بيوى ايسا كر لے تو ان دونوں پر كفارہ يہ ہے كہ وہ ايك مومن غلام آزاد كريں، اور اگر غلام نہ ملے تو دو ماہ كے مسلسل روزے ركھيں، اور ان دونوں كے ذمہ اس كے وارثوں كو ايك غلام يا لونڈى كى ديت دينا ہو گى جس نے اسے قتل نہ كيا ہو، باپ كو نہيں، كيونكہ باپ نے تو قتل كرنے كا حكم ديا ہے، اس ليے وہ كسى بھى چيز كا مستحق نہيں ۔
صورتِ مسئولہ میں بشرطِ سوال مذکورہ عورت بچے کے قتل کا سبب بنی ، عورت اپنے پیٹ کے جنین کی حساسیت سے بخوبی واقف ہوتی ہے ، اسے معلوم ہوتا ہے کہ بہ نسبت شکمِ مادر میں پلنے والی ننھی جان کے اسکے مضبوط ہاتھوں کی ضرب اسے باآسانی موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے ، اگر اس حمل ميں روح پھونكى جا چكى ہو، اور اس ميں حركت ہونے كے بعد اسقاط حمل كيا جائے اور بچہ مر جائے تو يہ ايك جان كو قتل كرنا شمار كيا جائيگا ، اسکے باوجود سائل کے سوال میں مذکور حاملہ نے اپنے شکم پر ضربیں لگائیں جو بچے کی موت کا باعث بنیں ، لہٰذا یہ قتلِ عمد ہے جس کا کفارہ عورت کے سر ہے اور وہ یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ سے صدقِ دل کے ساتھ توبہ کرے اور ایک مومن غلام آزاد کرے ، اگر وہ اس پر قادر نا ہو تو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھے ، روزے اس طرح ہوں کہ تسلسل رہے۔اور اگر روزوں کے دوران اسے ماہواری آجائے تو روزے مئوخر کر دے، بعد از طہارت وہیں سے روزے شروع کرے جہاں سے ماہواری کے باعث روزے مئوخر ہوئے تھے ۔
ھذا, واللہ تعالى أعلم, وعلمہ أکمل وأتم ورد العلم إلیہ أسلم والشکر والدعاء لمن نبہ وأرشد وقوم , وصلى اللہ على نبینا محمد وآلہ وسلم
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ
وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ
بِالصّٙوٙاب
Post a Comment