Tuesday, January 5, 2021

Pasnad ki Shadi?


 
نکاح کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ)
ترجمہ: اور اسکی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی جانوں سے تمہارے لیے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ غوروفکر کرنے والوں کے لئے اس میں کئی نشانیاں ہیں ( الروم/21 )
آدمی کے دین کی تکمیل نکاح سے ہی ہوتی ہے ، چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپﷺ نے فرمایا:
" جس شخص کو اللہ تعالی نیک صالح بیوی عطا کردے تو اللہ تعالی نے اسکے دین کا ایک حصہ مکمل کرنے میں تعاون کیا ہے، اب اسے چاہئے کہ دین کے دوسرے حصے میں اللہ سے ڈرے
- اسے طبرانی نے "الأوسط" (1/294) میں اور حاكم نے "مستدرك" (2/175) میں روایت کیا ہے
۔
ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
" جب انسان شادی کرلے تو اسکے دین کا آدھا حصہ مکمل ہوجاتا ہے، اب اسے چاہئے کہ باقی حصہ میں اللہ سے ڈرے "
دیکھیے : "السلسلة الصحيحة" (625)
اور آدمی کا سکون ایک دیندار عورت میں ہی ہوتا ہے ، اس لیے آدمی کو چاہیے کہ دیندار خاتون کو ہی نکاح کے لیے منتخب کرے ، جیسے کہ حدیث میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبیﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
" عورت سے شادی چار چیزوں کی بنیاد پر کی جاتی ہے: مال، حسب نسب، خوبصورتی، اور دینداری، چنانچہ تم دیندار کو پا لو، تمہارے ہاتھ خاک آلود کردے گی
( بخاری (4802) / ومسلم (1466)
تاہم اس میں کوئی حرج والی بات نہیں کہ آدمی خوبصورتی کو بھی مد نظر رکھے ، اس کی دلیل میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسولﷺ سے پوچھا گیا ، کونسی خواتین بہتر ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: (جسے دیکھ کر اسکا خاوند خوش ہوجائے، اور کوئی حکم دے تو اطاعت کرے، اور اپنے [بناؤ سنگھارکے]بارے میں خاوند کی مخالفت نہ کرے، اور خاوند کا مال سلیقے سے برتے)
- اسے أحمد (2/251) نے روایت کیا ہے
- البانی نے "السلسلة الصحيحة" (1838) میں اسے حسن قرار دیا ہے۔
اورفقہ حنبلی کی کتاب "شرح منتهى الإرادات" (2/621) میں ہے کہ:
"خوبصورت بیوی حاصل کرنا بھی سنت ہے؛ کیونکہ خوبصورت بیوی دلی سکون، کامل محبت، اور آنکھوں کو زیادہ محفوظ بنا سکتی ہے، اسی لئے نکاح سے پہلے لڑکی کو دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے"
اسی طرح بیوی محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی ہونی چاہئے جیسے کہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (محبت اور زیادہ بچے جننے والی خواتین سے شادی کرو، کیونکہ تمہاری کثرت کی بنا پر ہی میں سابقہ امتوں کے مقابلہ میں فخر کروں گا)
- أبو داود (2050) / نسائی (3227)
- البانی نے "سنن أبو داود" میں صحیح قرار دیا ہے ۔
ثابت ہوا کہ مرد کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی ہونے والی بیوی کا انتخاب اپنے معیارِ حسن پر کر سکتا ہے ۔ اس راہ سے کسی عورت کا طبعی عیب معلوم ہونے پر مرد احسن انداز سے اس سے شادی سے انکار کر سکتا ہے ۔ بلکہ کچھ اہل علم کے نزدیک مناسب یہ ہے کہ جب کوئی نکاح کا ارادہ کرے تو سب سے پہلے خوبصورتی کے بارے میں سوال کرے، بعد میں دینداری کے متعلق پوچھے، کیونکہ لوگوں کے ہاں خوبصورتی کو ہی پہلا درجہ دیا جاتا ہے۔
اس بارے میں امام بہوتی کہتے ہیں:
"پہلے دین کے بارے میں مت پوچھے ، کہ کہیں [شادی کیلئے قائل کرنے کیلئے] اسکی خوبصورتی کے تعریفیں کی جائیں، امام احمد کہتے ہیں: جب انسان منگنی کا پیغام بھیجنے لگے تو پہلے خوبصورتی کے بارے میں پوچھ لے، اگر لڑکی کی خوبصورتی کے بارے میں اچھا جواب ملے تو پھر دینداری کے متعلق سوال کرے، اگر مثبت جواب ملے تو شادی کر لے، اور اگر دینداری کے متعلق مثبت جواب نہ ہو تو عدم ِدینداری کی بنا پر وہ چھوڑ دے، لہذا سب سے پہلے دینداری کے بارے میں سوال نہ کرے، کیونکہ اگر پہلے دینداری کے بارے میں سوال کیا تو وہ خوبصورتی کے بارے میں سوال کریگا، اور اگر خوبصورتی کے بارے میں جواب اچھا نہ ہوا تو اب اگر رشتہ چھوڑے گا تو یہ دین کی وجہ سے نہیں بلکہ خوبصورتی کی وجہ سے چھوڑے گا"
دیکھیے : شرح منتهى الإرادات" (2/621)
معاشرے میں آج عمومی برائی یہ ہے کہ اخلاقیات اور دین بھولا بسرا ہو گیا ہے ، انسان صرف خوبصورتی کو ہی ترجیح دیتا ہے ، جن بنیادوں پر اسکی ازدواجی زندگی استوار ہونے جا رہی ہے انہیں کو ہی بھلا بیٹھتا ہے ، نتیجتًا ازدواجی عمارت کی بنیادی کمزور رہتی ہیں جو اکثر منہدم ہوجاتی ہیں ۔ اسی وجہ سے حدیث مبارکہ میں دیندار اور بااخلاق لڑکی سے شادی کی ترغیب دی گئی، تاکہ لوگ ظاہری شکل وصورت کے پیچھے لگ کر دین اور اخلاقیات سے غافل نہ رہ جائیں۔
چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لڑکی سے شادی چار چیزوں کی وجہ سے کی جاتی ہے، مال، حسب نسب، خوبصورتی، اور دینداری، تم دیندار کو پا لو، کامیاب ہوجاؤ گے)بخاری (4802) ومسلم (1466)
سرِ دست لڑکی کی شادی کے لیے یہ شرعئی قائدہ بھی بیان کرتی چلوں کہ لڑکی کو اسکی جائز پسند کے برخلاف ایسے مرد سے نکاح پر مجبور کرنے سے شریعت والدین کو باز رہنے کی تلقین کرتی ہے جس سے لڑکی شادی نہیں کرنا چاہتی ہو ۔ اور فقہائے کرام کے راجح موقف کے مطابق چاہے وہ لڑکی کنواری ہی کیوں نہ ہو ، یہی موقف احناف کا بھی ہے ، اس کی دلیل رسول اللہﷺ کا یہ فرمان ہے :
" کنواری لڑکی کی شادی اس وقت تک نہ کی جائے جب تک اس سے اجازت نہ لے لی جائے)
بخاری: (6968) ، مسلم: (1419)
بصورتِ دیگر اگر لڑکی کی پسند کے برخلاف اسکی شادی کر دی جائے تو یہ نکاح لڑکی کی اجازت پر معلق ہو گا ، اِلاّٙ کہ لڑکی راضی ہو جائے ۔ اور لڑکی کی رضامندی کی صورت میں یہ نکاح صحیح ہو جائے گا ، نکاح کا اعادہ نہیں کیا جائے گا ، ورنہ لڑکی کی عدم رضامندی اس نکاح کو فاسد کر دے گی ۔
بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :
" رسول اللہﷺ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک لڑکی آئی اور کہا: "میرے والد نے میری شادی اپنے بھتیجے سے کر دی ہے تا کہ اس (بھتیجے)کی خامیوں پر پردہ پڑ جائے " تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح باقی رکھنے یا ختم کرنے کا اختیار لڑکی کے ہاتھ میں دے دیا، اس پر اس لڑکی نے کہا: "میرے ساتھ میرے والد نے جو کچھ کیا ہے میں اس پر راضی ہوں، لیکن میرا مقصد یہ تھا کہ عورتوں کو معلوم ہو جائے کہ والد [تنہا] لڑکیوں کی شادی کا فیصلہ نہیں کر سکتے"
- ابن ماجہ: (1874)
- علامہ بوصیری نے سے "مصباح الزجاجة" (2/102) میں صحیح کہا ہے ۔
- الشیخ مقبل الوادعی اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ:
"یہ حدیث امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے" ماخوذ از: "الصحیح المسند" صفحہ: 160
فتاوى اللجنة الدائمة فتوی کمیٹی سے سوال کیا گیا:
ایسی لڑکی کے بارے میں اسلام کیا حکم دیتا ہے جس کی شادی جبری کی گئی ہو؟
تو کمیٹی نے جواب دیا :
"اگر لڑکی اپنے خاوند کو پسند نہ کرتی ہو تو اس کا معاملہ عدالت میں اٹھایا جائے گا، تا کہ عقد بحال رکھا جائے یا فسخ کر دیا جائے"
" فتاوى اللجنة الدائمة " (18/126)
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں:
"اگر ہم یہ کہیں کہ: نکاح صحیح نہیں ہے، تو پھر فسخ کرنا ضروری ہو گا؛ کیونکہ یہ نکاح صحیح نہیں ہے، لیکن اگر فرض کریں کہ لڑکی کو جب اس کے خاوند کے ساتھ بھیجا گیا اور لڑکی کو خاوند پسند آیا اور اس نے عقدِ نکاح جاری رہنے کی اجازت دے دی تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس طرح لڑکی کی اجازت سے نکاح درست ہو جائے گا"
دیکھیے : اللقاء الشهري/ (1/343)
لہٰذا میری ( مسزانصاری ) کی ذاتی رائے بھی یہی ہے کہ اپنے ہونے والے شوہر یا ہونے والی بیوی میں اگر آپ کوئی جسمانی عیب دیکھ کر تذبذب کا شکار ہو گئے ہیں تو اس سے نکاح کا ارادہ ختم کرنے میں ان شاءاللہ کوئی حرج نہیں ہے ، جذبات میں آکر اکثر مرد و عورت عیوب کو نظر انداز کرنے کو نیکی جان کر شادی کر لیتے ہیں ، پھر یہی عیوب آگے جاکر انکی ازدواجی زندگی کی خوشیاں ڈسنے کے لیے بڑے بڑے ازدھے بن جاتے ہیں ، قدم قدم پر انہیں ان عیوب سے جب دل و دماغ کو سوزِ گراں کرنا پڑتا ہے تو وہ انسانیت کو بالائے طاق رکھنے میں لمحہ بھی نہیں لگاتے ، یوں معاملات طلاق کے تین بول پر ختم ہو جاتے ہیں ، یہی نہیں بلکہ یہ دنیا بھی میاں بیوی کے درمیان میٹھے لفظوں کا سہارا لے کر دراڑیں ڈال دیتے ہیں ۔ آج قوت برداشت کی کمی کے اس وقت میں اپنے بپھرے احساسات پر گرفت بڑا مشکل کام ہوتا ہے ۔ لہٰذا مرد اگر کسی عورت میں کوئی ایسا عیب دیکھے جس سے اسکی دانست میں اسکی ازدواجی زندگی متاثر ہوسکتی ہے تو شریعت اس پر کوئی دباو نہیں ڈالتی کہ وہ نکاح پر رضامند ہو ۔
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے ایک آدمی نے آکر کہا :
یا رسول اللہﷺ مجھے ایک خوبصورت اور اچھے خاندان کی لڑکی کا رشتہ ملا ہے، لیکن وہ ماں نہیں بن سکتی، تو کیا میں اس سے شادی کرلوں؟ تو آپ نے اسے روک دیا، آدمی پھر دوسری بار بھی آیا، اور سابقہ بات کہی تو آپ نے پھر منع کیا، پھر تیسری مرتبہ بھی ایسے ہی ہوا تو اب کی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پیار کرنیوالی اور بچے پیدا کرنے والی خواتین سے شادی کرو، کیونکہ تمہاری کثرت کی بنا پر ہی میں سابقہ امتوں کے مقابلہ میں فخر کروں گا)
- ابو داود ( 2050 ) / نسائی ( 3227 )
- البانی رحمہ اللہ نے اسے " آداب الزفاف " ( ص 132 ) میں صحیح قرار دیا ہے۔
✍ میں اپنے معزز دینی بھائی کو یہی مشورہ دوں گی کہ جس فیصلہ پر آپ کا دل قرار نہیں پکڑ رہا اس کو کرنے سے اجتناب کیجیے ۔ ان شاءاللہ اللہ تعالیٰ آپ سے کوئی مواخذہ نہیں فرمائے گا ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

ALQURAN O HADITHSWITH MRS. ANSARI

اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ

وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔

ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search