Tuesday, January 5, 2021


عورت کا بال کٹوانا اسکے مقصد پر محمول ہے ۔ اگر تو عورت اپنے بالوں کو اس لیے کٹوائے کہ نامحرم مردوں کو دکھائے ، مردوں یا کفار کی مشابہت کے انداز سے کٹوائے اور یا پھر محض فیشن کی رو میں بہتے ہوئے بال کٹوائے ، اس طرح کے دیکھنے والوں میں نا محرم مرد بھی شامل ہوں تو یہ درست نہیں ہے ۔
بصورت دیگر مقاصد کے لیے الشیخ محمد صالح المنجد حفظہ اللہ کہتے ہیں
اگر خاتون کا بال کٹوانے کا مقصد خاوند کو خوش کرنا ہے، یا انتہائی لمبے بالوں کی دیکھ بھال میں آنے والی مشقت میں کمی کرنا مقصود ہے، یا اس کے علاوہ کوئی معقول اور جائز وجہ ہو تو پھر بال کٹوانے میں علمائے کرام کے صحیح موقف کے مطابق کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ عادات کے متعلق بنیادی قاعدہ یہی ہے کہ جب تک عادات کے متعلق حرمت کی نص نہیں آتی اس وقت تک ان کا حکم مباح ہوتا ہے؛ اور شریعت میں ایسی کوئی ممانعت نہیں ہے جس میں عورت کو بال کاٹنے سے منع کیا گیا ہو، بلکہ شریعت میں ایسے دلائل موجود ہیں جو بال کاٹنے کے جواز پر دلالت کرتے ہیں، جیسے کہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن رحمہ اللہ کی روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ: "نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں اپنے سر کے بالوں کو اتنا کاٹ دیتی تھیں کہ وہ وفرہ بن جاتے تھے" مسلم: (320)
ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عورت کا اپنے سر کے بال کاٹنے کے حوالے سے یہ ہے کہ بعض اہل علم نے اسے مکروہ قرار دیا ہے، اور بعض نے اسے حرام قرار دیا اور کچھ نے اسے جائز کہا ہے۔
تو چونکہ یہ مسئلہ اہل علم کے مابین اختلافی ہے تو ہمیں کتاب و سنت کی جانب رجوع کرنا چاہیے، لہذا مجھے اب تک ایسی کسی دلیل کا علم نہیں ہے، جس میں عورت کے لیے سر کے بالوں کو کاٹنا حرام ہو، اس لیے سر کے بالوں کو کاٹنا اصولی طور پر مباح ہو گا، اور اس میں رواج کو معتبر مانا جائے گا، چنانچہ پہلے زمانے میں عورتیں لمبے بال رکھنا پسند کرتی تھیں اور لمبے بالوں کی وجہ سے ناز بھی کرتی تھیں، خواتین اپنے بالوں کو شرعی یا جسمانی ضرورت کی بنا پر ہی کاٹتی تھیں، لیکن اس وقت عورتوں کے افکار بدل چکے ہیں، اس لیے حرمت کا موقف کمزور ہے، اس کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے، جبکہ کراہت کا موقف بھی غور و فکر کا متقاضی ہے، جبکہ بال کاٹنے کی اباحت کا موقف قواعد اور اصولوں کے مطابق ہے، ویسے بھی صحیح مسلم میں روایت موجود ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد اپنے سر کے بالوں کو اتنا کاٹ دیتی تھیں کہ وہ وفرہ بن جاتے تھے ۔
لیکن اگر کوئی عورت اپنے بال اتنے زیادہ کاٹ دیتی ہے کہ وہ مردوں جیسے لگنے لگتے ہیں تو اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسی خواتین پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں جیسی شکل و شباہت اختیار کریں۔
اسی طرح اگر کوئی عورت بالوں کو اس انداز سے کاٹتی ہے کہ کافر اور حیا باختہ عورتوں کی مشابہت ہو ، تو اس کے بارے میں یہ ہے کہ جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے۔
لیکن اگر کوئی عورت معمولی بال کاٹتی ہے کہ بال مردوں کے بالوں جیسے نہ لگیں ، نہ ہی کافر اور حیا باختہ عورتوں جیسے بال نظر آئیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے" ختم شد
"فتاوی نور علی الدرب" (فتاوى الزينة والمرأة/ قص الشعر) ( کیسٹ نمبر: 336 ، بی سائید)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

ALQURAN O HADITHSWITH MRS. ANSARI

اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ

وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين

ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب

 

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search