Tuesday, January 5, 2021

 


السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
حائضہ عورت کے لیے قرآن چھونے اور پڑھنے کے احکام
۔┄┅════════════════════┅┄
حالت حیض میں عورت سب کام کرسکتی ہے سوائے ۔۔۔طواف کعبہ ، نماز پڑھنا ، روزہ رکھنا ، قرآن چھونا اور ہم بستری۔
حائضہ عورت کے قرآن پڑھنے میں علماء کا اختلاف ہے لیکن راجح قول کے مطابق حائضہ قرآن کو چھوئے بغیر دیکھ کر پڑھ سکتی ہے ۔ اسکے علاوہ صبح و شام کے اذکار و اوراد بھی پڑھ سکتی ہے ۔ اذان کا جواب دینا تو اس سے کم درجہ رکھتا ہے لہٰذا حائضہ کو اذان کا جواب دینے میں کوئی چیز مانع نہیں ۔
حالتِ حیض میں حائضہ کے لیے حرام اور مباح کام :
۔⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣
حائضہ کے لئے حرام اور مباح اُمور کے احکام :
✦۔ حالت حیض میں جماع کرنا حرام ہے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ ھُوَ أذًی فَاعْتَزِلُوْا النِّسَائَ فِیْ الْمَحِیْضِ وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ فَاِذَا تَطَھَّرْنَ فَأتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اﷲُ إنَّ اﷲَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ}[البقرۃ:۲۲۲]
’’آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے، حالت حیض میں عورت سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ، ہاں جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے، اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘
حیض کا خون بند ہوجانے اور اس سے غسل کرلینے تک یہ تحریم قائم رہے گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ فَاِذَا تَطَھَّرْنَ فَأتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اﷲُ} خاوند کے لئے حائضہ عورت کے ساتھ جماع کے علاوہ فائدہ اٹھانا مباح ہے کیونکہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’ اِصْنَعُوْا کُلَّ شَیْئٍ إلَّا النِّکَاحَ ‘‘ [صحیح مسلم:۴۵۵] ’’جماع کے علاوہ سب کچھ کرو۔‘‘
✦۔ حائضہ عورت اپنی مدت حیض میں نماز اور روزہ چھوڑ دے گی، ان کی ادائیگی اس پر حرام ہے اور نہ ہی یہ عمل اس سے صحیح ثابت ہوں گے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺنے فرمایا :
’’ أَلَیْسَ إِذَا حَاضَتِ الْمَرْأَة لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ ‘‘ [صحیح البخاري:۲۹۳]
’’ کیا ایسانہیں، جب عورت حائضہ ہوجاتی ہے وہ نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ ہی روزہ رکھتی ہے۔‘‘
حائضہ جب حیض سے پاک صاف ہوجائے تو روزہ کی قضا کرے گی جبکہ نماز کی قضا نہیں کرے گی، کیونکہ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے:
’’ کُنَّا نَحِیْضُ عَلَی عَھْدِ رَسُوْلِ اﷲِ فَکُنَّا نُؤْمَرُ بِقَضَائِ الصَّوْمِ وَلَا نُؤْمَرُ بِقَضَائِ الصَّلَاة ‘‘ [سنن الترمذي:۶۴۵]
’’ہم عہد نبویﷺ میں حائضہ ہوجاتی تھیں، پس ہمیں روزے کی قضاء کا حکم دیا جاتا تھا جب کہ نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔‘‘
نماز اور روزے میں فرق اس لئے ہے کہ نماز مکرر ہے جس کی قضاء میں تنگی اور مشقت ہے اس لئے اس کی قضاء کا حکم نہیں دیا گیا۔ واللہ اعلم۔
✦۔ حائضہ پر بلا پردہ مصحف پکڑنا حرام ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{لَا یَمَسُّہُ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ}
[الواقعۃ:۷۹]
’’جسے صرف پاک لوگ ہی چھوسکتے ہیں۔‘‘
اور نبی کریمﷺ نے عمرو بن حزمؓ کو خط میں یہ لکھا :
’’ لاَ یَمَسُّ الْمُصْحَفَ اِلَّاطَاھِرٌ‘‘
’’مصحف کو پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں‘‘
[إرواء الغلیل:۱؍۱۵۸]
اور یہ حدیث متواتر ہے کیونکہ اس کو لوگوں کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں۔ ائمہ اربعہ کا یہی مذہب ہے کہ مصحف کو پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔ حائضہ کے لئے مصحف کو چھوئے بغیر زبانی تلاوت کرنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے اور زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ تلاوت نہ کی جائے الا یہ کہ کوئی سخت ضرورت ہو مثلاً قرآن بھول جانے کا اندیشہ ہو۔ واللہ اعلم۔
✦۔ حائضہ پربیت اللہ کا طواف کرنا حرام ہے: کیونکہ جب حضرت عائشہؓ حائضہ ہوگئیں تو آپؐ نے فرمایا:
’’ اِفْعَلِیْ مَا یَفْعَلُ الْحَاجُّ غَیْرَ اَلَّا تَطُوْفِیْ بِالْبَیْتِ حَتَّی تَطْھُرِیْ‘‘[صحیح البخاري:۲۹۴]
’’حاجیوں کے تمام اعمال کر سوائے بیت اللہ کے طواف کے یہاں تک کہ تو پاک ہوجائے۔‘‘
✦۔ حائضہ کے لئے مسجد میں ٹھہرنا حرام ہے، کیونکہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’ إنِّیْ لَا أحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلَا لِجُنُبٍ ‘‘ [سنن أبوداؤد:۲۳۲]
’’میں حائضہ اور جنبی کے لئے مسجد کو حلال نہیں کرتا۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
’’ إنَّ الْمَسْجِدَ لَا یَحِلُّ لِحَائِضٍ وَلَا جُنُبٍ ‘‘ [سنن ابن ماجہ:۶۴۵]
’’بے شک مسجد حائضہ اور جنبی کے لئے حلال نہیں ہے۔‘‘
لیکن مسجد میں ٹھہرے بغیر گزر جانا جائز ہے۔ جیسا کہ ایک موقع پر نبی کریمﷺ نے حضرت عائشہ رض کو کہا
’’ نَاوِلِیْنِیْ الْخَمْرَة مِنَ الْمَسْجِدِ ‘‘ ’’مجھے مسجد سے چٹائی پکڑاؤ‘‘
حضرت عائشہؓ نے کہا: میں حائضہ ہوں، نبی کریمﷺ نے فرمایا: "إنَّ حَیْضَتَکَ لَیْسَتْ بِیَدِکَ"
’’یقیناً تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے۔‘‘ [سنن أبوداود:۲۶۱]
حائضہ کے لئے صبح و شام، سونے جاگنے کا اذکار اور تسبیح، تہلیل، تحمید، تکبیر وغیرہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اسی طرح کتب تفسیر، حدیث، فقہ کا پڑھنا بھی جائز ہے۔
از فضیلةالشیخ صالح الفوزان
۔┄┅════════════════════════┅┄
حائضہ عورت کے قرآن چھونے اور پڑھنے کے بارے میں
۔⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣⇣
⦿ شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
سوال؛ كيا عورت دوران حيض قرآن مجيد كى تلاوت كر سكتى ہے ؟
الحمد للہ:
اہل علم كے ہاں يہ مسئلہ اختلافى ہے:
جمہور فقہاء كرام حالت حيض ميں قرآن مجيد كى تلاوت كى حرمت كے قائل ہيں، اس ليے عورت حيض ميں تلاوت نہيں كر سكتى، اس سے صرف ذكر و اذكار اور دعاء مستثنى ہے جس سے تلاوت كا قصد نہ ہو، مثلا بسم اللہ الرحمن الرحيم، انا للہ و انا اليہ راجعون، ربنا آتنا فى الدنيا حسنۃ و فى الآخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار الخ اس كے علاوہ دوسرى دعائيں جو قرآن مجيد ميں وارد ہيں وہ عمومى ذكر ميں شامل ہيں۔
فقہاء نے ممانعت كے كئى ايك امور اور دلائل بيان كيے ہيں:
① - يہ عورت جماع سے جنابت والے كے حكم ميں ہے كہ دونوں پر غسل فرض ہوتا ہے، اور حديث ميں ثابت ہے كہ:
على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں قرآن مجيد كى تعليم ديا كرتے تھے، اور جنابت كے علاوہ كوئى اور چيز انہيں ايسا كرنے سے نہيں روكتى تھى "
سنن ابو داود ( 1 / 281 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 146 ) سنن نسائى ( 1 / 144 ) سنن ابن ماجہ ( 1 / 207 ) مسند احمد ( 1 / 84 ) صحيح ابن خزيمۃ ( 1 / 104 ) امام ترمذى نے اسے حسن صحيح كہا ہے، اور حافظ ابن حجر كہتے ہيں:
حق يہى ہے كہ يہ حسن كے درجہ كى ہے اور قابل حجت ہے۔
② - ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" حائضہ عورت اور جنبى شخص قرآن ميں سے كچھ بھى نہ پڑھے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 131 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 595 ) سنن دار قطنى ( 1 / 117 ) سنن البيھقى ( 1 / 89 )۔
ليكن يہ حديث ضعيف ہے كيونكہ اسماعيل بن عياش حجازيوں سے روايت كرتے ہيں، اور اس كا حجازيوں سے روايت كرنا ضعيف ہے، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: حديث كا علم ركھنے والوں كے ہاں بالاتفاق يہ حديث ضعيف ہے. اھـ
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن تيميۃ ( 21 / 460 ) اور نصب الرايۃ ( 1 / 195 ) اور التلخيص الحبير ( 1 / 183 )۔
اور بعض اہل علم حائضہ عورت كے ليے قرآن مجيد كى تلاوت جائز قرار ديتے ہيں، امام مالك كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد سے بھى ايك روايت ہے جسے شيخ الاسلام ابن تيميہ نے اختيار كيا اور امام شوكانى نے راجح قرار ديا ہے، انہوں نے كئى ايك امور سےاستدلال كيا ہے:
① - اصل ميں اس كا جواز اور حلت ہى ہے حتى كہ اس كى ممانعت ميں كوئى دليل مل جائے، ليكن ايسى كوئى دليل نہيں ملتى جو حائضہ عورت كو قرآن كى تلاوت سے منع كرتى ہو۔
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
حائضہ عورت كى تلاوت كى ممانعت ميں كوئى صريح اور صحيح نص نہيں ملتى۔
اور ان كا كہنا ہے: يہ تو معلوم ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں بھى عورتوں كو حيض آتا تھا، ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں قرآن كى تلاوت سے منع نہيں كيا، جس طرح كہ انہيں ذكر و اذكار اور دعاء سے منع نہيں فرمايا۔
② - اللہ سبحانہ وتعالى نے قرآن مجيد كى تلاوت كا حكم ديا اور قرآن مجيد كى تلاوت كرنے والے كى تعريف كى اور اسے عظيم اجروثواب دينے كا وعدہ فرمايا ہے، چنانچہ اس سے منع اسى وقت كيا جا سكتا ہے جب كوئى دليل مل جائے، ليكن كوئى دليل ايسى نہيں جو حائضہ عورت كو قرآن مجيد كى تلاوت سے منع كرتى ہو، جيسا كہ بيان بھى ہو چكا ہے۔
③ - قرآن مجيد كى تلاوت منع كرنے ميں حائضہ عورت كا جنبى پر قياس كرنا صحيح نہيں بلكہ يہ قياس مع الفارق ہے، كيونكہ جنبى شخص كے اختيار ميں ہے كہ وہ اس مانع كو غسل كر كے زائل كر لے، ليكن حائضہ عورت ايسا نہيں كر سكتى، اور اسى طرح غالبا حيض كى مدت بھى لمبى ہوتى ہے، ليكن جنبى شخص كو نماز كا وقت ہونے پر غسل كرنے كا حكم ہے۔
④ - حائضہ عورت كو قرآن مجيد كى تلاوت سے منع كرنے ميں اس كے ليے اجروثواب سے محرومى ہے، اور ہو سكتا ہے اس كى بنا پر وہ قرآن مجيد ميں سے كچھ بھول جائے، يا پھر اسے تعليم كے دوران قرآن مجيد پڑھنے كى ضرورت ہو۔
مندرجہ بالا سطور سے حائضہ عورت كے ليے قرآن مجيد كى تلاوت كے جواز كے قائلين كے دلائل كى قوت ظاہر ہوتى ہے، اور اگر عورت احتياط كرتے ہوئے قرآن مجيد كى تلاوت صرف اس وقت كرے جب اسے بھول جانے كا خدشہ ہو تو اس نے محتاط عمل كيا ہے۔
يہاں ايك تنبيہ كرنا ضرورى ہے كہ جو كچھ اوپر كى سطور ميں بيان ہوا ہے وہ حائضہ عورت كے ليے زبانى قرآن مجيد كى تلاوت كے متعلق ہے۔
ليكن قرآن مجيد ديكھ كر تلاوت كرنے كا حكم اور ہے، اس ميں اہل علم كا راجح قول يہ ہے كہ قرآن مجيد سے تلاوت كرنا حرام ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اسے پاكبازوں كے علاوہ اور كوئى نہيں چھوتا ﴾.
اور اس خط ميں بھى ذكر ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عمرو بن حزم كو دے كر يمن كى طرف بھيجا تھا اس ميں ہے:
" پاك شخص كے علاوہ قرآن مجيد كو كوئى اور نہ چھوئے "
موطا امام مالك ( 1 / 199 ) سنن نسائى ( 8 / 57 ) ابن حبان حديث نمبر ( 793 ) سنن بيھقى ( 1 / 87 )۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
شہرت كے اعتبار سے علماء كى ايك جماعت نے اس حديث كو صحيح كہا ہے۔
اور امام شافعى كہتے ہيں: ان كے ہاں ثابت ہے كہ يہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خط ہے.
اور ابن عبد البر كہتے ہيں:
سيرت نگاروں اور اہل معرفت كے ہاں يہ خط مشہور ہے اپنى شہرت كى بنا پر يہ اسناد سے مستغنى ہے، كيونكہ لوگوں كا اس خط كو قبوليت دينا تواتر كے مشابہ ہے. اھـ
اور شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
يہ صحيح ہے۔
ديكھيں: التلخيص الحبير ( 4 / 17 ) اور نصب الرايۃ ( 1 / 196 ) اور ارواء الغليل ( 1 / 158 )، حاشيۃ ابن عابدين ( 1 / 159 ) المجموع ( 1 / 356 ) كشاف القناع ( 1 / 147 ) المغنى ( 3 / 461 ) نيل الاوطار ( 1 / 226 ) مجموع الفتاوى ابن تيميۃ ( 21 / 460 ) الشرح الممتع للشيخ ابن عثيمين ( 1 / 291 )۔
اس ليے اگر حائضہ عورت قرآن مجيد ديكھ كر پڑھنا چاہے تو وہ اسے كسى منفصل چيز كے ساتھ پكڑے مثلا كسى پاك صاف كپڑے يا دستانے كے ساتھ، يا قرآن كے اوراق كسى لكڑى اور قلم وغيرہ كےساتھ الٹائے، قرآن كى جلد كو چھونے كا حكم بھى قرآن جيسا ہى ہے۔
۔┄┅════════════════════════┅┄
⦿حائضہ کے لیے کسی ضرورت کی وجہ سے قرآن مجید پڑھنا جائز ہے، مثلاً: اگر وہ معلمہ ہو تو تعلیم دینے کی خاطر اس کے لیے قرآن مجید پڑھنا جائز ہے یا وہ طالبہ ہو تو تعلیم حاصل کرنے کے لیے قرآن مجید پڑھ سکتی ہے یا اگر وہ اپنے چھوٹے یا بڑے بچوں کو قرآن پڑھاتی ہو تو انہیں سکھانے کے لیے ان سے پہلے قرآن مجید کی آیت پڑھ سکتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ حائضہ عورت کو اگر قرآن مجید پڑھنے کی ضرورت ہو تو اس کے لیے پڑھنا جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح اگر اسے یہ اندیشہ ہو کہ وہ قرآن بھول جائے گی تو اسے یاد رکھنے کی غرض سے پڑھنا بھی جائز ہے، خواہ وہ حالت حیض میں ہو۔ بعض اہل علم نے یہ کہا ہے کہ حائضہ کے لیے قرآن پڑھنا حرام ہے، خواہ وہ ضرورت کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو۔ گویا اس مسئلہ میں تین اقوال ہیں، جن میں سے زیادہ صحیح یہ ہے کہ جب اسے تعلیم و تعلم یا بھول جانے کے خوف کی وجہ سے قرآن مجید پڑھنے کی ضرورت ہو تو وہ پڑھ سکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔
دیکھیے : فتاویٰ ارکان اسلام/نمازکےمسائل/صفحہ : ٢٢٦
۔┄┅════════════════════════┅┄
⦿حیض اور نفاس والی عورتوں کا مناسک حج کے بارے میں لکھی دعائیں پڑھنےمیں کوئی حرج نہیں بلکہ صحیح قول کے مطابق ان کےقرآن مجید پڑھنےمیں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ایسی کوئی صحیح اور صریح نص موجود نہیں ہے جو حیض اورنفاس والی عورتوں کو قرآن مجید پڑھنے سےروکتی ہو۔ البتہ جنبی شخص کےلیے قرآن مجید پڑھنے کی ممانعت ہے جیساکہ سیدنا علی سےمروی حدیث ہے (مسنداحمد:110/1)
اور حیض ونفاس والی عورتوں کےبارے میں ابن عمر سے مروی حدیث ہے:
«لَا تَقْرَأْ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ شَيْئًا»جامع الترمذي‘ الطهاره باب ماجاء في الجنب والحائض ...الخ‘حدیث :131
’’ حائضہ اور جنبی قرآن میں سے کچھ نہ پڑھیں‘‘
تویہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کی اسناد میں ابن عیاش ہے‘ جو موسیٰ بن عقبہ سے روایت کرتا ہے اور محدثین ابن عیاش کی روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اہل شام یعنی اپنے شہر کے لوگوں سےروایت کرنےمیں جید ہے لیکن اہل حجاز سےروایت کرنے میں ضعیف ہے اور اس کی یہ روایت اہل حجاز سے ہے لہذاضعیف ہے۔لیکن اس کےباوجود حائضہ عورت کو چاہیے کہ وہ قرآن مجید زبانی پڑھے اور اسے ہاتھ نہ لگائے جب کہ جنبی غسل کیے بغیر زبانی دیکھ کر کسی طرح بھی نہیں پڑھ سکتا۔دونوں میں فرق یہ ہے کہ جنابت کا وقت بہت مختصر ہوتا ہے اور اس کےلیے فورا غسل کرناممکن ہوتا ہے اور پھر معاملہ اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ جب چاہے غسل کر لے اور اگر غسل کرنے سے عاجز ہوتو تیمم کرلے اور نماز اور قرآن پڑھ لے لیکن حیض اور نفاس والی عورت کا معاملہ ان کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ ان کا معاملہ اللہ عزوجل کے ہاتھ میں ہے وہ جب وہ حیض اور نفاس سے پاک ہوں گی تو غسل کریں گی اور ظاہر ہےکہ حیض اور نفاس میں کئی دن لگ جاتے ہیں لہذا ان کےلیے قرِآن مجید پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے تکہ بھول نہ جائیں جب قرآن مجید پڑھ سکتیں ہیں تو ان کتابوں کو پڑھنا تو بالاولیٰ جائز ہوگا جن میں آیات واحادیث پر مشتمل دعائیں ہوتی ہیں ۔ یہی بات درست اور علماء کے اقوال میں سے صحیح ترین قول ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ/جلد : 4/صفحہ :٣٧
۔┄┅════════════════════════┅┄
⦿ طالبہ اور معلمہ کے لئے حیض کی حالت میں بوقت ضرورت،مثلاً تعلیم و تعلم کی غرض سے یا اسے بھول جانے کے اندیشے وغیرہ کی وجہ سے قرآن مجید پڑھنا اور پڑھانا جائز ہے۔ (مجموع فتاوى ورسائل الشيخ محمد صالح العثيمين - المجلد الحادي عشر - باب الحيض)
اگر بھول جانے کا اندیشہ ہو تو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک حائضہ کے لئے قرآن مجید پڑھنا واجب ہے۔کیونکہ(ما لا يتمّ الواجب إلاّ به فهو واجب ) جس کے بغیر واجب مکمل نہ ہوتا ہو وہ چیز بھی واجب ہے۔ (مختصرا من الموسوعة الفقهية)
دیکھیے : فتاویٰ علمائے حدیث/کتاب الصلاۃ/جلد :١
┄┅════════════════════════┅┄
⦿علماء کرام کے صحیح قول کے مطابق حیض نفاس والی کے لئے کتب تفسیر کے پڑھنے بلکہ ہاتھ لگائے بغیر قرآن مجید کے پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن جنبی کے لئے مطلقاً ممنوع ہے کہ جب تک وہ غسل نہ کرے قرآن مجید نہیں پڑھ سکتا۔لیکن وہ کتب تفسیر وحدیث کا اس طرح مطالعہ کرسکتا ہے کہ درمیان میں آنے والی آیات کو نہ پڑھے کیونکہ حدیث سے ثابت ہے کہ:
«انه كان لا يعجزه شيئ عن قراءة القرآن الا الجنابة »(سنن ابی داؤد)
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کے سوا اور کسی وجہ سے قرآن مجید کی تلاوت سے نہیں رکتے تھے۔''
مسند احمد کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ:
«فاما الجنب فلا ولا اية »(مسنداحمد)
''جنبی کوا یک آیت پڑھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔''
(شیخ ابن بازؒ)
فتاویٰ اسلامیہ/جلد1/صفحہ: ٣٢١
حائضہ عورت کے لئے قرآن پاک کو چھونا تو اس کی ممانعت میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں اہل علم اس کے بارے مختلف ہیں البتہ فضل اور بہتر یہی ہے کہ مسلمان عورت طہارت کی حالت میں قرآن حکیم کو چھوئے یا کوئی صاف ستھرا کپڑا قرآن مجید کے اوراق کو پلٹنے کے لئے استعمال کرے۔ ہاتھ لگانے سے اجتناب کرے امام نووی رحمہ اللہ اس صورت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ اختلاف کے بغیر جائز ہے (المجموع شرح المہذب 3/372) تفصیل کے لیے دیکھیں:
"آپ کے مسائل اور ان کا حل/جلد3۔کتاب الطہارت/صفحہ : ٦۵
۔┄┅════════════════════════┅┄
حائضہ کے لیے قرآن پڑھنا مباح ہے تاکہ اسے بھول نہ جائیں اور تاکہ قراء ت کی فضیلت ان سے فوت نہ ہوا اور وہ کتاب اللہ سے شرعی احکام معلوم کر سکیں۔ پھر ان کے لیے جب قرآن پڑھنا جائز ہے تو ایسی کتابیں پڑھنا بدرجہ اولی جائز ہوا جن میں آیات و احادیث کے علاوہ دوسری دعائیں بھی ـمخلوط ہوتی ہیں۔ یہی وہ راہ صواب اور علماء کے دواقوال میں سے صحیح تر ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ دارالسلام/ج 1
۔┄┅════════════════════════┅┄
حائضہ کے لئے تلاوت کی اجازت دی گئی تاکہ قرآن مجید کو بھول نہ جائیں اورقرآن مجید کی تلاوت اوراس سے شرعی احکام سیکھنے کی فضیلت سے محروم نہ رہیں لہذا یسی کتابوں کے پڑھنے کی توبالاولی اجازت ہوگی،جن میں آیات واحادیث کی ملی جلی دعائیں ہوں ۔اس مسئلہ میں یہی بات درست ہے اورعلماء کے دوقولوں میں سے یہی قول صحیح ترین ہے۔
سماحةالشیخ ابن باز رحمہ اللہ
دیکھیے :فتاویٰ اسلامیہ :جلد1/صفحہ:٣١٩
۔┄┅════════════════════════┅┄
⦿ جہاں تک حالتِ حیض میں کتب تفسیر پڑھنے کا سوال ہے تو علماء کرام کے صحیح قول کے مطابق حیض نفاس والی کے لئے کتب تفسیر کے پڑھنے بلکہ ہاتھ لگائے بغیر قرآن مجید کے پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن جنبی کے لئے مطلقاً ممنوع ہے کہ جب تک وہ غسل نہ کرے قرآن مجید نہیں پڑھ سکتا۔لیکن وہ کتب تفسیر وحدیث کا اس طرح مطالعہ کرسکتا ہے کہ درمیان میں آنے والی آیات کو نہ پڑھے کیونکہ حدیث سے ثابت ہے کہ:
انه كان لا يعجزه شيئ عن قراءة القرآن الا الجنابة
(سنن ابی داؤد)
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کے سوا اور کسی وجہ سے قرآن مجید کی تلاوت سے نہیں رکتے تھے۔''
مسند احمد کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ:
فاما الجنب فلا ولا اية (مسنداحمد)
''جنبی کوا یک آیت پڑھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔''
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ/ج١/صفحہ : ٣٢٠
┄┅════════════════════════┅┄
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

ALQURAN O HADITHSWITH MRS. ANSARI

اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ

وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہوَسَلَّمَ

وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔

ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search