Saturday, February 22, 2020

Sajda Sahw Ahkam o Masail

سجدہ سہو؛ اَحکام ومسائل اور مختلف صورتیں





أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
۔••─━══★﷽★══━─ ••
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

سجدہ سہو؛ اَحکام ومسائل اور مختلف صورتیں

'سجدہ سہو' ایسے دو سجدوں کو کہتے ہیں جنہیں ایک نمازی بھول چوک کی وجہ سے اپنی نماز میں پیدا ہونے والے خلل کو پورا کرنے (نقص کی تلافی) کے لیے کرتا ہے۔ اس کے اسباب تین ہیں: 1۔زیادتی 2۔کمی اور 3۔شک

ذیل میں ہر صورت کے احکام ومسائل علیحدہ علیحدہ پیش کیے جاتے ہیں:

1۔زیادتی
۔─━══★◐★══━─

◐ سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو
جب کوئی نمازی جان بوجھ کر اپنی نماز میں قیام، رکوع ، سجدہ یا قعدہ کا اضافہ کردیتا ہے تو اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے اور اگر یہی عمل اس سے بھول کر سرزد ہو جاتا ہے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس کو یاد آتا ہے تو ایسے موقع پر اس کے لیے سجدہ سہو کر لینا کافی ہے۔ سجدہ سہو کر لینے سے اس کی نماز صحیح ہو جائے گی۔اور اگر اضافی عمل کے دوران اسے یاد آجائے تو اس اضافی عمل سے لوٹنا اور آخر نماز میں سجدہ سہو کرنا واجب ہے۔ ایسا کرلینے سے اس کی نماز صحیح ہو جائے گی۔

اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص نے ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھ لی اور تشہد میں اس کو یاد آیا کہ چار کی جگہ اُس نے پانچ رکعتیں پڑھ لی ہیں۔ ایسے موقع پر وہ تشہد کو پورا کرے گا اور سلام پھیرے گا، پھر سجدہ سہو کرے گا اور دوبارہ سلام پھیرے گا اور اگر اس اضافی عمل کی یاد اس کو سلام پھیرنے کے بعد آئی ہے، تو صرف سجدہ سہو کرے گا اور سلام پھیر دے گا۔ اگر اس اضافی عمل کی یاد پانچویں رکعت کے دوران آ جائے تو فوراً اسی وقت بیٹھ جائے گا اور تشہد پڑھے گا اور سلام پھیرے گا، پھر سجدہ سہو کر کے سلام پھیر دے گا۔

اس مسئلہ کی دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی یہ حدیث ہے کہ

أَنَّ النَّبِىَّ ﷺ صَلَّى الظُّهْرَ خَمْسًا فَلَمَّا سَلَّمَ، قِيلَ لَهُ: أَزِيدَ فِى الصَّلاَةِ؟ قَالَ:«وَمَا ذَاكَ».قَالُوا: صَلَّيْتَ خَمْسًا. فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَ مَا سَلَّمَ...
صحیح بخاری:1309

''نبی کریمﷺ نے ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھ لی، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ کیا: نماز میں کچھ اضافہ ہوا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: کیوں کیا ہوا؟ صحابہ کرام نے عرض کیا، آپ نے پانچ رکعت پڑھ لی ہے، لہٰذا آپ نے سلام کے بعد دو سجدے کیے، اور ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ نے اپنے پاؤں پھیر لیے اور قبلہ کا رخ کیا اور دو سجدے کیے، پھر اس کے بعد سلام پھیرا۔''

◐ نماز پوری ہونے سے پہلے سلام
نماز پوری ہونے سے پہلے سلام پھیرنا نماز میں اضافہ کرنا ہے، لہٰذا اگر کوئی نمازی جان بوجھ کر نماز پوری ہونے سے پہلے سلام پھیر دیتا ہے تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی۔

اور اگر یہ عمل بھول کر کرتا ہے اور اس کی یاد کافی دیر کے بعد آتی ہے تو نئے سرے سے نمازکو دہرائے گا اور اگر تھوڑی دیر کے بعد اس کی یاد آتی ہے، جیسے دو یا تین منٹ بعد تو اپنی نماز کو پوری کرےگا، سلام پھیرے گا پھر سجدہ سہو کرے گا اور دوبارہ سلام پھیرے گا۔ اس مسئلہ کی دلیل حضرت ابو ہریرہ سے مروی یہ حدیث ہے کہ

''نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام کو ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی اور دو ہی رکعت پر سلام پھیر دیا۔ اس پر کچھ جلد باز لوگ یہ کہتے ہوئے مسجد کے دروازوں سے نکلے کہ 'نماز کم کر دی گئی ہے۔' یہ سن کر نبی اکرمﷺ نے مسجد کی لکڑی پر ٹیک لگائی اس وقت آپ کے چہرہ سے غصہ کا اظہار ہو رہا تھا۔ اتنے میں ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ بھول گئے ہیں یا واقعی نماز میں کمی کر دی گئی ہے؟ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : نہ میں بھولا ہوں نہ نماز میں کمی کی گئی ہے۔ یہ سن کر اس آدمی نے عرض کیا: نہیں، آپ بھول گئے ہیں۔ یہ سن کر آپﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا: کیا یہ شخص صحیح کہہ رہا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: جی ہاں، لہٰذا آپﷺ آگے بڑھے، باقی ماندہ نماز پوری کی پھر سلام پھیرا، دو سجدے کیے اور آخری سلام پھیرا۔''
صحیح بخاری: 1172

جب امام نماز پوری ہونے سے پہلے ہی سلام پھیر دے، اور مقتدیوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوں جن کی بعض رکعتیں چھوٹ گئی ہوں، پھر امام کو یاد آیا ہو کہ اس کی نماز پوری نہیں ہوئی ہے، لہٰذا اسے پوری کرنے کے لیے کھڑا ہو گیا ہو، ایسے موقع پر ان مقتدیوں کو اختیار ہے جن کی کچھ رکعتیں چھوٹ گئی تھیں کہ چاہیں تو اپنی چھوٹی ہوئی رکعتوں کو پورا کریں اور سجدہ سہو کر لیں، یا پھر امام کے ساتھ ہو جائیں اور اس کی اتباع کرنے لگیں اور جب امام سلام پھیر دے تو پھر اپنی چھوٹی ہوئی رکعتوں کو پورا کریں اور سلام کے بعد سجدہ سہو کر لیں۔ یہی مناسب اور بہتر ہے۔

2۔نقص ؍کمی (رکن کی سہواً کمی کی صورت میں رکعت لغو)
۔─━══★◐★══━──━══★◐★══━─

دوسری صورت یہ ہے کہ ارکانِ نماز میں کمی واقع ہو جائے یعنی👇

جنہیں سجدہ سہو سے پورا نہیں کیا جا سکتا:1۔ قیام 2۔ تکبیر تحریمہ 3۔سورۃ فاتحہ پڑھنا 4،5۔رکوع اور اطمینان 6،7۔ قومہ اور اس میں اطمینان 8،9۔ سجدہ اور اس میں اطمینان 10۔11۔ دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا اور اطمینان 12،13۔ آخری تشہد پڑھنا اور اس کے لیے بیٹھنا 14۔ ایک بار سلام پھیرنا۔
(صحیح فقہ السنہ از سید کمال سالم:1؍314 تا328)

۔ اگر کوئی نمازی اپنی نماز کے کسی رکن کو چھوڑ دے اور وہ رکن تکبیر تحریمہ ہو تو اس کی نماز ہی نہیں ہو گی، چاہے اس نے عمداً (جان بوجھ) کر چھوڑا ہو یا سہواً، اس سے چھوٹ گئی ہو، اس لیے کہ تکبیر تحریمہ چھوڑنے کی وجہ سے اس کی نماز ہی نہیں ہوئی۔ اور اگر تکبیر تحریمہ کے علاوہ کسی دوسرے رکن کو عمداً چھوڑا ہے یا سہواً۔ اگر عمدا چھوڑا ہے تب بھی اس کی نماز باطل ہو جائے گی اور اگر سہواً چھوڑا ہے، اور اس رکن کو چھوڑ کر نماز جاری رکھتے ہوئے دوسری رکعت میں اس چھوڑے ہوئے رکن تک پہنچ گیا ہے، تو وہ رکعت لغو (رائیگاں) ہو جائے گی۔ جس رکعت میں ایک رکن کو چھوڑا ہے تو دوسری رکعت جو ناقص رکعت کے بعد آئے گی، ناقص رکعت کے قائم مقام ہو گی اور اگر دوسری رکعت میں اس جگہ پر نہیں پہنچا ہے جس جگہ پہلی رکعت میں ایک رکن کو چھوڑا ہے تو چھوٹے ہوئے رکن کو ادا کرے گا، اس کے بعد باقی ماندہ نماز پوری کرے گا، لیکن دونوں حالتوں میں سلام کے بعد اس پر سجدہ سہو واجب ہو گا۔

اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص پہلی رکعت میں دوسرا سجدہ بھول گیا اور یہ بھول اس کو تب یاد آئی جب وہ دوسری رکعت کے دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھا تھا، تو اس کی پہلی رکعت کالعدم ہوئی اور دوسری رکعت کو پہلی رکعت سمجھ کر اپنی نماز پوری کرے گا اور سلام پھیر کر سجدہ سہو کرے گا، پھر سلام پھیرے گا۔

دوسری صورت یہ ہے کہ ایک شخص نے پہلی رکعت کے سجدہ ثانیہ اور اس سے پہلے کے قعدہ کو بھول کر چھوڑ دیا اور یہ اسے اس وقت یاد آیا جب وہ دوسری رکعت میں رکوع سے کھڑا ہوا، تو ایسی حالت میں وہ بیٹھ کر سجدہ کرے گا، پھر اپنی نماز پوری کرے گا اور سلام پھیرے گا، پھر سجدہ سہو کر کے دوبارہ سلام پھیرے گا۔

ترکِ واجب (واجب کی سہواً کمی کی صورت میں سجدہ سہو)

جب کوئی نمازی نماز کے کسی واجب کو عمداً چھوڑ دیتا ہے تو اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے یعنی👇

واجباتِ نماز : نماز میں جسے کہنا یا کرنا واجب ہے اور بھول کر رہ جائے تو سجدہ سہو سے اس کمی کو دور کیا جا سکتا ہے، مگر جان بوجھ کر چھوڑنے سے نماز باطل ہو جائے گی: 1۔ استفتاح 2۔ تعوذ 3۔ آمین 4 ،5،6۔ تکبیرات ،تسبیح اور ربنا لك الحمد 7۔ رکوع وسجود کی تسبیحات 8 ،9۔ تشہد اور اس کے لیے بیٹھنا۔
(صحیح فقہ السنہ: 1؍ 328 تا336)

اور اگر بھول کر چھوٹ جاتا ہے اور اس واجب کی جگہ کو چھوڑنے سے پہلے اسے یاد کر لیتا ہے تو اس کو ادا کرے گا اور اس پر سجدہ سہو واجب نہیں ہو گا اور اگر اس چھوٹےہوئے واجب کی جگہ کو چھوڑنے کے بعد اور اس کے بعد والے رکن تک پہنچنے سے پہلے اس کو یاد کر لیا ہے تو اس چھوٹے ہوئے واجب کو ادا کرے گا، پھر اپنی باقی نمازپوری کرے گا اور سلام پھیرے گا، پھر سجدہ سہو کرے گا اور دوبارہ سلام پھیرے گا۔ اور اگر اس واجب کو چھوڑ کر دوسرے رکن میں پہنچ جاتا ہے تو وہ واجب ساقط ہو جائیگا، لہٰذا اسے ادا کیے بغیر اپنی نماز کو جا ری رکھے گا اور سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو کرے گا۔

مثال کے طور پر ایک شخص دوسری رکعت کےسجدہ ثانیہ کے بعد بھول کر اور تشہد اول چھوڑ کر تیسری رکعت کی نیت سے اٹھا اور پوری طرح کھڑا ہونے سے پہلے اس کو اپنا سہو یاد آ گیا تو بیٹھ جائے گا اور تشہد پڑھے گا، پھر اپنی نماز پوری کرے گا، اس حالت میں اس پر سجدہ سہو واجب نہ ہو گا اور اگر اسکی یاد اس کو اچھی طرح سیدھے کھڑے ہونے سے پہلے آئی تو لوٹ کر بیٹھ جائے گا اور تشہد پڑھے گا، پھر اپنی باقی نماز پوری کرے گا اور سلام پھیر کر سجدہ سہو کرے گا پھر آخری سلام پھیرے گا۔

اور اگر اس کی یاد اس کو پوری طرح کھڑے ہونے کے بعد آئی تو اس کو لوٹ کر ادا نہیں کرے گا بلکہ اپنی باقی نماز پوری کرے گا اور سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو کرے گا۔

اس مسئلہ کی دلیل عبد اللہ بن بحینہ سے مروی یہ حدیث ہے کہ

«أَنَّ النَّبِىَّ ﷺ صَلَّى بِهِمُ الظُّهْرَ فَقَامَ فِى الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ لَمْ يَجْلِسْ، فَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ حَتَّى إِذَا قَضَى الصَّلاَةَ ، وَانْتَظَرَ النَّاسُ تَسْلِيمَهُ ، كَبَّرَ وَهُوَ جَالِسٌ ، فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ ثُمَّ سَلَّمَ»
صحیح بخاری: 795

''نبی اکرمﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی اور پہلی دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہو گئے اور تشہد اول کے لیے بیٹھنا بھول گئے، لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ یہاں تک کہ جب آپ نے نماز پوری کی تو لوگ آپ کے سلام کا انتظار کرنے لگے، آپ نے سلام سے پہلے ہی بیٹھے ہوئے تکبیر کہی اور سلام سے پہلے دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا۔''

3۔ شک
۔─━══★◐★══━─

شک کہتے ہیں دو ایسے امور کے مابین تردد کو جس میں یہ فیصلہ نہ ہو سکے کہ ان دونوں امور میں سے کونسا امر واقع ہوا ہے، عبادات کے اندر تین صورتوں میں شک کا اعتبار نہ ہو گا۔

1۔ جب یہ شک وہم کے درجہ میں ہو، اس کی کوئی حقیقت نہ ہو، جیسے وسوسہ۔

2۔ جب آدمی ایسا شکی بن جائے کہ جب بھی کوئی عبادت ادا کرے اس میں اسکو شک ہونے لگے۔

3۔ جب یہ شک عبادات سے فارغ ہونے کے بعد لاحق ہو تو اس کا بھی کوئی اعتبار نہ ہو گا، جب تک کہ یقینی حالت نہ پیدا ہو جائے اور اگر یہ شک یقین میں تبدیل ہو جائے تو یقین کے مطابق اپنا عمل کرے گا۔

مثال کے طور پر ایک شخص نے ظہر کی نماز پڑھی اور نماز سےفارغ ہونے کے بعد اس کو شک ہو گیا کہ اس نے تین رکعت پڑھی ہیں یا چار رکعت، اس حالت میں اس شک کا کوئی اعتبار نہ ہوگا۔الا یہ کہ اس کو یہ یقین ہو جائے کہ اس نے تین ہی رکعت پڑھی ہیں۔ لہٰذا اگر نماز پڑھے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تو ایک رکعت اور پڑھ کر اپنی نماز مکمل کرے گا پھر سلام پھیر کر سجدہ سہو کرے گا، پھر اخیر میں سلام پھیرے گا۔ اور اگر بہت دیر کے بعد اس کو تین رکعت کا یقین ہوا تو از سر نو نماز پڑھے گا، ان تین حالتوں کے علاوہ دوسری جگہوں میں شک کا اعتبار ہو گا۔

نماز میں جو شک ہوتا ہے وہ دو حالتوں سے خالی نہیں:

پہلی حالت: دو حالتوں میں سے ایک کا راجح ہونا، لہٰذا جو حالت اس کے نزدیک راجح ہو گی اس کے مطابق عمل کرے گا اور اسی پر اپنی نماز پوری کرے گا۔ پھر سلام کے بعد سجدہ سہو کرے گا اور اس کے بعد آخری سلام پھیرے گا۔

جیسے ایک شخص ظہر کی نماز پڑھتا ہے اور کسی رکعت کے بارے میں اس کو شک ہو جاتا ہے کہ آیا وہ دوسری رکعت ہے یا تیسری، لیکن آخر کار یہ راجح ہو جاتا ہے کہ یہ تیسری رکعت ہے، لہٰذا وہ اس کو تیسری رکعت مان کر ایک رکعت اور پڑھے گا اور سلام پھیرے دے گا، پھر سجدہ سہو کر کے آخری سلام پھیرے گا۔

اس مسئلہ کی دلیل عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی وہ حدیث ہے جسے صحیحین میں نقل کیا گیاہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

''اگر تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہو جائے تو صواب ودرستگی تک پہنچنے کی بھر پور کوشش کرے اور جو راجح ہو اس پر اپنی نماز پوری کرے، پھر سلام پھیرے اس کے بعد دو سجدے کرے۔ ''
(یہ الفاظ بخاری کے ہیں)
صحیح بخاری:401

دوسری حالت: نمازی کے نزدیک دو حالتوں میں سے کوئی حالت راجح نہ ہو، تو اس صورت میں یقین پر یعنی کم تر صورت پر بنیاد رکھے گا اور اسی کے حساب سے اپنی باقی نماز پوری کرے گا اور سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے گا، پھر سلام پھیرے گا۔

جیسے ایک شخص نے عصر کی نماز شروع کی اور کسی رکعت میں اس کو شک ہو گیا کہ آیا یہ دوسری رکعت ہے یا تیسری، اور ان دونوں میں سے کوئی بھی اس کے نزدیک راجح نہ ہو، تو اس صورت میں اس کو دوسری مانے گا اورتشہد اول پڑھے گا اور اس کے بعد دو رکعت اور پڑھے گا اور سجدہ سہو کر کے سلام پھیرے گا۔

اس مسئلہ کی دلیل حضرت ابو سعید خدریؓ سے یہ حدیث ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ: « إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِى صَلاَتِهِ فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى ثَلاَثًا أَمْ أَرْبَعًا؟ فَلْيَطْرَحِ الشَّكَّ وَلْيَبْنِ عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ، ثُمَّ يَسْجُدُ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ. فَإِنْ كَانَ صَلَّى خَمْسًا شَفَعْنَ لَهُ صَلاَتَهُ وَإِنْ كَانَ صَلَّى إِتْمَامًا لأَرْبَعٍ كَانَتَا تَرْغِيمًا لِلشَّيْطَانِ»
صحیح مسلم:571

''جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے اور یہ نہ معلوم ہو سکے کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار رکعتیں تو شک کو چھوڑ دے اور جس پر یقین ہو اس کے مطابق نماز پوری کرے۔ پھر سلام سے پہلے دو سجدے کرے اور اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھ لی ہیں تو ایک اور ملا کر (چھ) جڑواں بنا لے اور اگر چار کو پورا کرنے کے لیے ہو تو یہ سجدہ سہو شیطان کی تذلیل وتوہین ہے۔''

شک کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ایک شخص ایسے وقت میں آ کر جماعت میں شامل ہو جاتا ہے جب امام رکوع میں ہوتا ہے، وہ سب سے پہلے آ کر سیدھے کھڑا ہو جاتا ہے اور تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھتا ہے، پھر رکوع میں جاتا ہے، اس وقت وہ تین حالتوں میں سے کسی ایک حالت سے خالی نہیں ہوتا۔

پہلی حالت: اس کو اس کا یقین ہو جاتا ہے کہ اس نے امام کو رکوع کی حالت میں پایا ہے، اور اس کے جماعت میں شامل ہوتے وقت امام نے اپنا سر رکوع سے نہیں اٹھایا تھا تو اس حالت میں وہ اس رکعت کا پانے والا سمجھا جائے گا اور فاتحہ کا پڑھنا اس سے ساقط ہو جائے گا۔ 👇

''فاتحہ کا پڑھنا ساقط ہو جائے گا۔'' یہ شیخ﷫کا موقف ہے۔ جبکہ احادیث میں صراحت ہے: «لاصلاةَ لمن يقرأ بفاتحة الكتاب» ''جس نے فاتحہ نہ پڑھی، اس کی نماز نہیں۔''
صحیح بخاری: 723 (ادارہ)

دوسری حالت: اس کو اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ وہ جب جماعت میں شامل ہوا تو اس کے شامل ہونے سے پہلے ہی امام رکوع سے اپنا سر اُٹھا چکا تھا، اس صورت میں یہ رکعت اس سے چھوٹ جائے گی۔

تیسری حالت: تیسری صورت یہ ہے کہ اس کو اس بات میں شک ہو جاتا ہے کہ اس نے امام صاحب کے رکوع کی حالت میں پایا تھاکہ امام صاحب رکوع سے سر اٹھا چکے تھے، لہٰذا اس کی وہ رکعت چھوٹ جائے گی، اس طرح شک میں جو حالت بھی اس کے نزدیک راجح ہو اس پر عمل کرے گا اور اسی کے مطابق اپنی نماز پوری کر کے سلام پھیرے گا۔ پھر سجدہ سہو کر کے سلام پھیرے گا اور اگر اس سے نماز کا کچھ بھی حصہ چھوٹا نہیں تو پھر اس پر کوئی سجدہ نہیں۔

اور اگر کوئی حالت راجح نہ ہو تو یقین پر عمل کرے گا، یعنی یہ سمجھ کر کہ اس سے وہ رکعت چھوٹ ہی گئی ہے، لہٰذا اسی کے مطابق اپنی نماز کو پوری کرے گا اور سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے گا اور سجدہ سہو کے بعد سلام پھیرے گا۔

فائدہ

ایک شخص کو اپنی نماز میں شک ہو جاتا ہے کہ کتنی پڑھی ، لہٰذا وہ یقینی حالت پر یا اس کے نزدیک جو راجح ہے اس پر مذکورہ تفصیل کے مطابق عمل کرتا ہے، پھر بعد میں نماز کے اندر اس پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس نے جو عمل کیا ہے وہ حقیقت حالت کے مطابق ہے اور اس کی نماز میں کوئی کمی وبیشی نہیں ہوئی ہے تو اس صورت میں اس سے سجدہ سہو ساقط ہو جائے گا، اکثر علماء کا اس پر فتویٰ ہے، اس لیے کہ یہاں سجدہ سہو واجب کرنے والا سبب یعنی شک ختم ہو گیا ہے۔ بعض اہل علم نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے سجدہ سہو ساقط نہ ہو گا، اس لیے کہ اس صورت میں سجدہ سہو کرنے سے شیطان کی تذلیل ہوتی ہے، جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''اور اگر اس نے پوری نماز پڑھی تو یہ دونوں سجدہ سہو شیطان کی تذلیل کے لیے ہوں گے۔'' اس لیے کہ اس نے اپنی نماز کے بعض حصہ کو شک کی حالت میں ادا کیا ہے، یہی راجح قول ہے۔

اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص نے نماز شروع کی اور ایک رکعت میں اس کو شک ہو گیا کہ آیا یہ رکعت دوسری ہے یا تیسری؟ اور ان دونوں میں سے کوئی بھی اس کے نزدیک راجح نہ ہو سکا، لہٰذا اس پر واضح ہو گیا کہ واقع میں وہ دوسری رکعت تھی، لہٰذا مشہور قول کے مطابق اس پر سجدہ سہو نہیں ہے اور دوسرے قول کے مطابق اس پر سجدہ سہو اس میں بھی واجب ہے اور اسی کو ہم نے راجح قرار دیا ہے۔

مقتدی پر سجدہ سہو
۔─━══★◐★══━─

جب امام کو نماز میں سہو ہو جائے تو امام صاحب کے سجدہ سہو میں مقتدی کو بھی اتباع کرنا واجب ہے، حضرت ابوہریرہ سے نبی اکرمﷺ کا فرمان مروی ہے:

« إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا ، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا »
صحیح بخاری:378
''امام اسی لیے بنایا گیا ہے تاکہ اس کی اتباع کی جائے، لہٰذا تم اس سے اختلاف نہ کرو، پھر آگے فرمایا: جب امام سجدہ سہو کرے تو تم بھی سجدہ کرو۔''

امام سجدہ سہو سلام سے پہلے یا سلام کے بعد کرے تو مقتدی پر اس کی اتباع ضروری ہے، الا یہ کہ مقتدی مسبوق ہو یعنی اس کی نماز کا کچھ حصہ چھوٹ چکا ہو تو سلام کے بعد والے سجدہ سہو میں وہ امام صاحب کی اتباع نہیں کرے گا، اس لیے کہ یہ اس کے لیے ممکن ہی نہیں، اس لیے کہ مسبوق اپنے امام کے ساتھ سلام نہیں پھیر سکتا ہے، لہٰذا وہ امام کے سلام کے بعد اپنی باقی ماندہ نماز پوری کرے گا، پھر سلام پھیرے گا اس کے بعد سجدہ سہو کر کے آخری سلام پھیرے گا۔

جیسے ایک شخص جماعت کی آخری رکعت میں جا کر جماعت میں شامل ہوتا ہے اور امام صاحب پر سلام کے بعد سجدہ سہو واجب ہوتا ہے، لہٰذا جب امام سلام پھیرے گا تو اس مسبوق کو اپنی نماز پوری کرنے کےلیے کھڑا ہونا پڑے گا اور امام کے ساتھ سجدہ سہو نہیں کرے گا، لہٰذا جب اپنی باقی ماندہ نماز پڑھ لے گا اور سلام پھیر دے گا تو سلام کے بعد سجدہ سہو کرے گا۔

اور اگر مقتدی سے امام کے پیچھے سہو ہو جائے اور امام کو کچھ سہو نہ ہو اور مقتدی کی نماز میں سے کچھ چھوٹا نہ ہو اس پر سجدہ سہو واجب نہیں ۔ اس لیے کہ اس کے سجدہ سہو سے امام سے اختلاف لازم آئے گا اور امام کی اتباع میں خلل پڑے گا۔ اس لیے کہ صحابہ کرام نے اس وقت تشہد اول چھوڑ دیا تھا جب رسول ﷺ اسے بھول گئے تھے، لہٰذا وہ سب آپﷺ کے ساتھ کھڑے ہو گئے تھے اور امام کی اتباع اور امام سے عدم اختلاف کے خیال سے تشہد کے لیے بیٹھے نہیں تھے۔

لیکن اگر اس سے امام کی اقتدا کے دوران نماز کا کچھ حصہ چھوٹ جائے یا چھوٹی ہوئی نماز کی تکمیل کے وقت اس سے سہو ہو جائے تو سجدہ سہو اس سے ساقط نہ ہو گا، لہٰذا جب وہ چھوٹی ہوئی نماز پوری کرے گا تو سلام سے پہلے یا سلام کے بعد مذکورہ تفصیل کے مطابق سجدہ سہو کرے گا۔

اس کی مثال یہ ہے کہ ایک مقتدی رکوع میں سبحان ربي العظيم کہنا بھول گیا، اور نماز کا کوئی حصہ اس سے نہیں چھوٹا تو اس پر سجدہ سہو واجب نہیں اور اگر اس سے ایک رکعت یا ایک سے زیادہ رکعت چھوٹ جائے تو اسے پوری کرے گا، پھر سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے گا۔

دوسری مثال: ایک مقتدی اپنے امام کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھ رہا تھا جب امام صاحب چوتھی رکعت کے لیے کھڑے ہوئے تو مقتدی اس خیال سے بیٹھ گیا کہ یہ آخری رکعت ہے۔ پھر جب اسے معلوم ہوا کہ امام کھڑا ہے تو وہ بھی کھڑا ہو گیا، اس صورت میں اگر اس سے نماز کا کوئی حصہ نہ چھوٹا ہو تو اس پر سجدہ سہو واجب نہیں اور اگر ایک یا اس سے زیادہ رکعت اس سے چھوٹ جائے تو اسے پوری کرے گا اور سلام پھیر کر سجدہ سہو کرے گا، پھر سلام پھیرے گا۔ یہ سجدہ سہو اس پر صرف اس لیے واجب ہو گا کہ امام چوتھی رکعت کے لیے کھڑا ہوا تو امام کے اثنائے قیام میں وہ بیٹھا رہا اور یہ بیٹھنا نماز میں اضافہ کرنا ہے، جس کی وجہ سے یہ سجدہ سہو واجب ہوا۔

تنبیہ

پچھلے صفحات میں یہ بات واضح ہوگئی کہ سجدہ سہو کبھی سلام سے پہلے ہوتا ہے اور کبھی سلام کے بعد۔ سلام سے پہلے دو جگہوں پر ہوتا ہے:

سجدہ سہو سلام سے پہلے کب؟
۔─━══★◐★══━─

1. جب کوئی نقص (کمی) ہو جائے، اس بارے میں حضرت عبد اللہ بن بحینہؓ سے یہ حدیث مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے جب تشہد اول چھوڑ دیا تھا تو سجدہ سہو سلام سے پہلے فرمایا تھا۔ یہ پوری حدیث پیچھے گذر چکی ہے۔

2. جب سجدہ سہو ایسے شک کی وجہ سے واجب ہو جس میں کسی ایک طرف اس کا رجحان نہ ہو سکے، اس بارے میں حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی حدیث گذر چکی ہے کہ جسے اپنی نماز میں شک ہو جائے اور یہ نہ معلوم ہو کہ کتنی رکعت پڑھی ہیں، تین یا چار؟ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم دیا ہے کہ سلام سے پہلے اس پر دو سجدہ سہو واجب ہے، یہ حدیث بھی گذر چکی ہے۔

سجدہ سہو سلام کے بعد کب؟
۔─━══★◐★══━─

اسی طرح سلام کے بعد بھی سجدہ سہو دو جگہوں پر واجب ہوتا ہے:

1. جب نماز میں زیادتی کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہو، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے یہ حدیث مروی ہے کہ آپﷺ نے ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھا دی تھی، سجدہ سہو سلام کے بعد ہونا چاہیے، کیونکہ آپﷺ کو اس کا علم نماز کے بعد ہی ہوا تھا، لہٰذا سلام کے بعد جب یاد آیا تو آپ نے دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا اور اس کی وضاحت نہیں کی کہ سجدہ سہو سلام کے بعد ہونا چاہیے کیونکہ آپ کو اس کا علم نماز کے بعد ہی ہوا تھا، لہٰذا عمومی حکم سے یہ معلوم ہوا کہ نماز میں زیادتی سے جو سجدہ سہو واجب ہوتا ہے وہ سلام کے بعد ہی ہوتا ہے، چاہے اس سہو کا علم سلام سے پہلے ہوا ہو یا سلام کے بعد۔

اسی طرح کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب ایک نمازی نے اپنی نماز پوری کرنے سے پہلے بھول کر سلام پھیر دیا ہو پھر بعد میں یاد آیا ہو اور اس کے بعد نماز پوری کرچکا ہو تو چونکہ دوران نماز اس نے ایک سلام کا اضافہ کر دیا ہے، لہٰذا سلام کے بعد سجدہ سہوکرے گا، اس لیے کہ حضرت ابوہریرہ سے حدیث مروی ہے جس میں نبی اکرمﷺ نے ظہر یا عصر کی نماز میں دو ہی رکعت پر سلام پھیر دیا تھا، بعد میں جب لوگوں نے آپ کو یاد دلایا تو آپ نے نماز پوری کی، سلام پھیرا۔ اس کے بعد سجدہ سہو کیا اور آخری سلام پھیرا۔ یہ حدیث پیچھے گزر چکی ہے۔

2. جب نماز میں ایسا شک ہو کہ اس میں ایک طرف کا رجحان پایا جائے، اس کی دلیل عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہﷺ نے یہ حکم دیا کہ جسے اپنی نماز میں شک ہو جائے، اسے صحت کی جستجو کرنی چاہیے اور اسی پر اپنی نماز پوری کرنی چاہیے، اور سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا چاہیے، یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے۔

اگر کسی آدمی سے دو سہو سرزد ہو جائیں جس میں سے ایک سہو سلام سے پہلے سجدہ سہو واجب کرتا ہو اور دوسرا سہو سلام کے بعد سجدہ سہو واجب کرتا ہو تو علماے کرام کا کہنا ہے کہ سلام سے پہلے والے سجدہ سہو کو غالب قرار دے کر سلام سے پہلے سجدہ سہو ادا کیا جائے گا۔

اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص ظہر کی نماز پڑھ رہا ہے اور جب تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوتا ہے، تشہد او ل کے لیے بیٹھنا بھول جاتا ہے اور تیسری رکعت کے بعد تیسری رکعت کو دوسری رکعت سمجھ کر اس کے بعد تشہد اول کرتا ہے، ایسے موقع پر وہ کھڑا ہو جائے اور چوتھی رکعت پوری کر کے سجدہ سہو کرے گا اور اخیر میں سلام پھیرے گا۔

چونکہ اس شخص نے تشہد اول کو چھوڑ دیا ہے جس کا سجدہ سہو سلام سے پہلے ہوتا ہے اور تیسری رکعت کے بعد ایک جلسہ کا اضافہ کر دیا ہے جس کا سجدہ سہو سلام کے بعد ہے، لہٰذا سلام سے پہلے والےسجدہ سہو کو غالب مان کر اسی پر عمل کرے گا۔


سجدہ سہو کے بعد تشہد پڑھنے کا حکم
۔─━══★◐★══━─
شيخ محمد بن صالح بن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے اسی قسم کا سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
“اگر سجدے سلام كے بعد ہوں تو سلام پھیرنا ضرورى ہے، اور دو سجدے كر كے سلام پھيرا جائے گا"
ليكن كيا اس كے ليے تشہد بھى ضرورى ہے ؟
اس ميں علماء كرام كے ہاں اختلاف پایا جاتاہے،لیکن راجح مسلک یہی ہے كہ تشہد پڑھنا واجب نہيں ہے " فتاوى ابن عثيمين ( 14 / 74)
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا سجدہ سہو كے بعد تشہد بيٹھا جائيگا يا نہيں، چاہے سجدہ سہو سلام سے پہلے ہو يا بعد ميں ؟
تو كميٹى كا جواب تھا:
اگر سجدہ سہو سلام سے قبل ہو تو بلا شک و شبہ اس كے بعد تشہد بيٹھنا مشروع نہيں ہے، ليكن اگر سلام كے بعد سجدہ سہو ہو تو اس ميں اہل علم كا اختلاف ہے، راجح مسلک يہى ہے كہ صحيح احاديث ميں اس كا ذكر نہ ہونے كى بنا پر يہ مشروع نہيں ہے ، اس سلسلہ میں وارد تمام روایات ضعیف اور کمزور ہیں جن سے استدلال نہیں کیا جا سکتا" فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 148 )
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی
۔____________________________________________________________________________________
سہو کے دو سجدے کرنے کے بعد دوبارہ تشہد پڑھنے کی ایک روایت بالکل ضعیف منقول ہے
۔─━══★◐★══━──━══★◐★══━──━══★◐★══━─
جو سنن ابوداود میں ہے
عن ابي عبيدة بن عبد الله عن ابيه،
عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "إذا كنت في صلاة فشككت في ثلاث او اربع واكبر ظنك على اربع تشهدت، ‏‏‏‏‏‏ثم سجدت سجدتين وانت جالس قبل ان تسلم، ‏‏‏‏‏‏ثم تشهدت ايضا، ‏‏‏‏‏‏ثم تسلم". قال ابو داود:‏‏‏‏ رواه عبد الواحد، ‏‏‏‏‏‏عن خصيف، ‏‏‏‏‏‏ولم يرفعه، ‏‏‏‏‏‏ووافق عبد الواحد ايضا سفيان، ‏‏‏‏‏‏وشريك، ‏‏‏‏‏‏وإسرائيل واختلفوا في الكلام في متن الحديث ولم يسندوه.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب تم نماز میں رہو اور تمہیں تین یا چار میں شک ہو جائے اور تمہارا غالب گمان یہ ہو کہ چار رکعت ہی پڑھی ہے تو تشہد پڑھو، پھر سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کرو، پھر تشہد پڑھو اور پھر سلام پھیر دو“۔
امام ابوداؤد کہتے ہیں: اسے عبدالواحد نے خصیف سے روایت کیا ہے اور مرفوع نہیں کیا ہے۔ نیز سفیان، شریک اور اسرائیل نے عبدالواحد کی موافقت کی ہے اور ان لوگوں نے متن حدیث میں اختلاف کیا ہے اور اسے مسند نہیں کیا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سننن الکبری / السہو ۱۲۶ (۶۰۵)، وانظر رقم: (۱۰۱۹)، (تحفة الأشراف: ۹۶۰۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۴۲۸، ۴۲۹ موقوفاً) (ضعیف) (ابوعبیدہ کا اپنے والد ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے،
یہ حدیث چونکہ ضعیف ہے اسلئے سجدہ سہو کے بعد دوبارہ تشہد نہیں پڑھنا چاہیئے
۔____________________________________________________________________________________
سلام سے پہلے سہو کے دو سجدوں کی حدیث :
۔─━══★◐★══━─━══★◐★══━─
عن عبد الرحمن بن عوف ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:‏‏‏‏ "إذا شك احدكم في الثنتين والواحدة فليجعلها واحدة، ‏‏‏‏‏‏وإذا شك في الثنتين والثلاث فليجعلها ثنتين، ‏‏‏‏‏‏وإذا شك في الثلاث والاربع فليجعلها ثلاثا، ‏‏‏‏‏‏ثم ليتم ما بقي من صلاته حتى يكون الوهم في الزيادة، ‏‏‏‏‏‏ثم يسجد سجدتين وهو جالس قبل ان يسلم
عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جب کوئی شخص شک کرے کہ دو رکعت پڑھی ہے یا ایک، تو ایک کو اختیار کرے، (کیونکہ وہ یقینی ہے) اور جب دو اور تین رکعت میں شک کرے تو دو کو اختیار کرے، اور جب تین یا چار میں شک کرے تو تین کو اختیار کرے، پھر باقی نماز پوری کرے، تاکہ وہم زیادتی میں ہو کمی میں نہ ہو، پھر سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرے“ ۱؎۔
سنن ابن ماجہ 1209 سنن الترمذی/الصلاة ۱۷۵ (۳۹۸)، (تحفة الأشراف: ۹۷۲۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۹۰، ۱۹۳، ۱۹۵) (صحیح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخری تشہد پورا پڑھ کر سھو کے دو سجدے کرنے کی حدیث
عن زيد بن اسلم بإسناد مالك، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ إن النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "إذا شك احدكم في صلاته فإن استيقن ان قد صلى ثلاثا فليقم فليتم ركعة بسجودها، ‏‏‏‏‏‏ثم يجلس فيتشهد، ‏‏‏‏‏‏فإذا فرغ فلم يبق إلا ان يسلم فليسجد سجدتين وهو جالس، ‏‏‏‏‏‏ثم ليسلم".
(سنن ابو داود 1029 )
اس طریق سے بھی زید بن اسلم سے مالک ہی کی سند سے مروی ہے، زید کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہو جائے تو اگر اسے یقین ہو کہ میں نے تین ہی رکعت پڑھی ہے تو کھڑا ہو اور ایک رکعت اس کے سجدوں کے ساتھ پڑھ کر اسے پوری کرے پھر بیٹھے اور تشہد پڑھے، پھر جب ان سب کاموں سے فارغ ہو جائے اور صرف سلام پھیرنا باقی رہے تو سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرے پھر سلام پھیرے“۔
سنن ابو داود حدیث رقم: (۱۰۲۴، ۱۰۲۶)، (تحفة الأشراف: ۴۱۶۳) (صحیح )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سہو کے دو سجدے کرنے کے بعد دوبارہ تشہد نہیں پڑھنا چاہیئے ، بلکہ سجدہ سھو کے بعد سلام پھیر دینا چاہیئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔____________________________________________________________________________________
سجدہ سہو کے بعد تشہد پڑھنے کا حکم
۔─━══★◐★══━─
شيخ محمد بن صالح بن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے اسی قسم کا سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
“اگر سجدے سلام كے بعد ہوں تو سلام پھیرنا ضرورى ہے، اور دو سجدے كر كے سلام پھيرا جائے گا"
ليكن كيا اس كے ليے تشہد بھى ضرورى ہے ؟
اس ميں علماء كرام كے ہاں اختلاف پایا جاتاہے،لیکن راجح مسلک یہی ہے كہ تشہد پڑھنا واجب نہيں ہے " فتاوى ابن عثيمين ( 14 / 74)
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا سجدہ سہو كے بعد تشہد بيٹھا جائيگا يا نہيں، چاہے سجدہ سہو سلام سے پہلے ہو يا بعد ميں ؟
تو كميٹى كا جواب تھا:
اگر سجدہ سہو سلام سے قبل ہو تو بلا شک و شبہ اس كے بعد تشہد بيٹھنا مشروع نہيں ہے، ليكن اگر سلام كے بعد سجدہ سہو ہو تو اس ميں اہل علم كا اختلاف ہے، راجح مسلک يہى ہے كہ صحيح احاديث ميں اس كا ذكر نہ ہونے كى بنا پر يہ مشروع نہيں ہے ، اس سلسلہ میں وارد تمام روایات ضعیف اور کمزور ہیں جن سے استدلال نہیں کیا جا سکتا" فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 148 )
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی
۔____________________________________________________________________________________
كيا سجدہ سہو كى قضاء كى جائيگى ؟
۔─━══★◐★══━─
اگر نماز ميں آپ پر سجدہ سہو واجب ہو اور سجدہ كرنا بھول جائيں تو كيا نماز باطل شمار ہو گى؟
۔─━══★◐★══━─۔─━══★◐★══━─۔─━══★◐★══━─
الانصاف ( 2 / 154 ) ميں امام مرداوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
مصنف ـ ابن قدامہ ـ رحمہ اللہ تعالى نے سجدہ سہو كى قضاء ميں دو شرطيں ركھى ہيں:
پہلى شرط: يہ كہ مسجد ميں ہو.
دوسرى شرط: مدت زيادہ نہ ہوئى ہو.
اور امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے مروى ہے كہ: تھوڑى سى مدت گزرى ہو تو سجدہ كر لے، چاہے مسجد سے نكل بھى گيا ہو.
اور امام احمد سے ہى منقول ہے كہ: اگر مدت يا زيادہ دير بھى ہو گئى ہو يا اس نے بات چيت كر لى ہو، يا مسجد سے نكل گيا ہو تو بھى سجدہ كر لے، شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى نے بھى يہى اختيار كيا ہے.
ديكھيں: الاختيارات الفقھيۃ ( 94 ).
اور زاد المستقنع كى شرح الروض المربع ميں ہے:
( اور اگر وہ اسے بھول جائے ) يعنى سلام سے قبل سجدہ سہو كرنا بھول جائے ( اور سلام پھير لے ) پھر اسے ياد آئے ( تو سجدہ كر لے ) يہ واجب ہے ( اگر تھوڑى دير ہوئى ہو ) ... اور جب سلام پھير لے ـ اگر عرفى طور پر زيادہ دير بھى ہو گئى ہو يا وضو ٹوٹ گيا، يا وہ مسجد سے نكل چكا ہو ـ تو سجدہ نہ كرے تو اس كى نماز صحيح ہے.
ديكھيں: الروض المربع شرح زاد المستقنع ( 2 / 461 ).
اور الشرح الممتع ( 3 / 537 ) ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
قولہ: " اور اگر وہ بھول جائے اور سلام پھير لے تو اگر تھوڑى دير ہوئى ہو تو سجدہ كر لے "
يعنى جو سجدہ سلام سے قبل تھا ـ اگر تو تھوڑى مدت ہوئى ہو سجدہ كر لے، ليكن اگر زيادہ دير ہو چكى ہو تو ساقط ہو جائيگا، اور اس كى نماز صحيح ہے.
اس كى مثال يہ ہے:
ايك شخص پہلى تشھد بھول گيا تو اس پر سجدہ سہو كرنا واجب ہے اور يہ سلام سے قبل ہو گا، ليكن وہ سجدہ كرنا بھى بھول گيا اگر تو اسے كچھ ہى دير بعد ياد آ جائے تو سجدہ كر لے، ليكن اگر زيادہ دير ہو گئى تو سجدہ سہو ساقط ہو جائيگا: مثلا اسے بہت دير كے بعد ياد آئے، اسى ليے مصنف كا كہنا ہے:
" اگر كچھ دير گزرى ہو تو سجدہ كر لے "
اگر مسجد سے نكل چكا ہو اور مسجد نہ آئے تو ساقط ہو جائيگا، ليكن اگر اس نے نماز مكمل كرنے سے قبل ہى سلام پھير ديا تو وہ واپس آكر نماز مكمل كرے گا، كيونكہ يہ دوسرا مسئلہ ہے، اس نے ركن چھوڑا ہے جو ادا كرنا ضرورى ہے، اور اس شخص نے واجب چھوڑا ہے جو بھول جانے كى حالت ميں ساقط ہو جاتا ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
بلكہ وہ سجدہ كرے گا چاہے زيادہ دير بھى ہو چكى ہو، كيونكہ يہ نقص اور كمى كو پورا كرنے والا ہے، چنانچہ جب بھى ياد آئے يہ نقصان پورا كرے گا.
ليكن اقرب وہ ہے جو مؤلف رحمہ كا قول ہے كہ اگر زيادہ دير ہو جائے تو يہ ساقط ہو جائيگا، يہ اس ليے كہ يہ يا تو نماز كے ليے واجب ہے، يا اس ميں واجب ہے، چنانچہ اس سے ملصق ہے، اور مستقل نماز نہيں حتى كہ ہم يہ كہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو نماز سے سو جائے يا اسے بھول جائے تو جب اسے ياد آئے نماز ادا كر لے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 597 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 684 ) اس كے راوى انس رضى اللہ تعالى عنہ ہيں.
بلكہ يہ تو كسى دوسرے كے تابع ہے، چنانچہ اگر كچھ دير بعد ياد آجائے تو سجدہ كر لے، وگرنہ ساقط ہو جائيگا.
الشيخ محمد صالح المنجد​
۔____________________________________________________________________________________
سجدہ سہو اور سجدہ تلاوت ميں كيا پڑھا جائے گا؟
۔─━══★◐★══━──━══★◐★══━─
سجدہ تلاوت اور سجدہ سہو ميں وہى دعا پڑھى جائيگى جو نماز كے سجدہ ميں پڑھى جاتى ہے" سبحان ربى الاعلى" يہ ايك بار پڑھنا واجب ہے، اور كمال كا كم از كم درجہ تين بار ہے، اور سجدے ميں اہم شرعى دعائيں پڑھنا مستحب ہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ركوع ميں اپنے رب كى تعظيم بيان كرو، اور سجدے ميں دعاء كرنے كى جدوجھد اور كوشش كرو، يہ زيادہ لائق ہے كہ تمہارى دعا قبول كر لى جائے"
حديث ميں استعمال شدہ لفظ " فقمن " كا معنى زيادہ لائق ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان:
" بندہ اپنے رب كے سب سے زيادہ قريب سجدہ كى حالت ميں ہوتا ہے لہذا دعاء كثرت سے كيا كرو"
يہ دونوں حديثيں امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں روايت كى ہيں.​
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے ركوع اور سجدہ ميں اكثر يہ دعاء پڑھا كرتے تھے:
" سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي "
اے اللہ اے ہمارے رب تو پاك ہے، اور تيرى ہى تعريف ہے، اے اللہ مجھے بخش دے"
متفق عليہ .​
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ركوع اور سجدے ميں يہ دعاء بھى پڑھا كرتے تھے:
" سبوح قدوس رب الملائكة والروح "
اسے مسلم رحمہ اللہ نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.​
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے .
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 443 ).
۔____________________________________________________________________________________
سجدہ سہو ميں مقتدى كے حالات !!!
۔─━══★◐★══━─
جب امام كے ساتھ مكمل نماز ادا كرے يعنى مسبوق ( اس كى كوئى ركعت نہ رہى ہو ) نہ ہو تو مقتدى كے ليے سجدہ سہو ميں امام كى اقتدا كرنى ضرورى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:
" يقينا امام اس ليے بنايا گيا ہے كہ اس كى اقتدا كى جائے، لہذا اس كى مخالفت نہ كرو، جب وہ ركوع كرے تو تم ركوع كرو، اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ كہے تو تم ربنا لك الحمد كہو، اور جب وہ سجدہ كرے تو تم سجدہ كرو"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 722 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 414 ).
ليكن مسبوق جس كى ايك يا زيادہ ركعت رہ جائيں اگر امام سلام سے قبل سجدہ سہو كرے تو اقتدا كرے گا، اور سلام كے بعد سجدہ سہو كرنے كى صورت ميں امام كى اقتدا نہ كرے كيونكہ ايسا كرنا مشكل ہے، اس ليے كہ وہ امام كے ساتھ سلام نہيں پھير سكتا، اسے فوت شدہ ركعت ادا كر كے سلام پھيرے اور پھر سجدہ سہو كر كے سلام پھيرے گا.
يہ مجمل طور پر ہے، ليكن اس كى تفصيل كو درج ذيل نقاط ميں ملخص كيا جا سكتا ہے:
سجدہ سہو ميں مقتدى كى امام كے ساتھ كئى ايك حالتيں ہيں:
1 - جب مقتدى امام كے ساتھ مكمل نماز پائے اور امام بھولنے كى صورت ميں سجدہ سہو كرے تو مقتدى امام كى لازمى متابعت كرے گا، چاہے سجدہ سلام سے قبل ہو يا بعد.
2 - اگر مقتدى مسبوق ہو يعنى اس كى كوئى ركعت رہتى ہو اور امام نماز كے اس حصہ ميں بھول جائے جو مقتدى نے امام كے ساتھ پائى ہے اس ميں تفصيل ہے:
اگر امام سلام سے قبل سجدہ سہو كرے تو مقتدى بھى اس كے ساتھ سجدہ كرے كے پھر اپنى نماز مكمل كرے گا، پھر دوبارہ سجدہ سہو كرے گا؛ كيونكہ اس كا امام كے ساتھ سجدہ كرنا اپنى جگہ پر نہيں تھا، اس ليے كہ سجدہ سہو نماز كے آخر ميں ہوتا ہے دوران نماز نہيں، بلكہ نماز كے آخر ميں ہو گا اور اس كا امام كے ساتھ سجدہ صرف امام كى متابعت كى بنا پر تھا.
اور اگر امام سلام كے بعد سجدہ سہو كرتا ہے تو مسبوق شخص امام كے ساتھ سجدہ نہيں كرے گا، بلكہ وہ اپنى نماز مكمل كر كے سلام پھير كر سجدہ سہو كر كے سلام پھيرے گا.
3 - اگر مقتدى مسبوق ہو اور امام نماز كے اس حصہ ميں بھول جائے جو مقتدى امام كے ساتھ ادا نہيں كر سكا، مثلا امام پہلى ركعت ميں بھول جائے اور مقتدى دوسرى ركعت ميں آ كر ملے تو اس حالت ميں:
اگر امام سلام سے قبل سجدہ كرے تو مقتدى امام كى متابعت كرتے ہوئے امام كے ساتھ سجدہ كر كے پھر اپنى نماز مكمل كرے گا، اس صورت ميں مقتدى دوبارہ سجدہ نہيں كرے گا كيونكہ امام كے بھولنے كا حكم مقتدى كو ملحق نہيں ہوتا.
اور اگر امام سلام كے بعد سجدہ كرے تو مقتدى امام كى متابعت نہيں كرے گا اور نہ ہى اسے نماز كے آخر ميں سجدہ كرنا لازم ہے؛ كيونكہ اسے امام كے بھولنے كا حكم ملحق نہيں ہوتا، اس ليے كہ امام مقتدى كے ساتھ ملنے سے قبل بھولا ہے.
يہ سب حالتيں تو امام كے بھولنے كى ہيں، ليكن اگر مقتدى خود بھول جائے تو اس كى بھى كئى ايك حالتيں ہيں:
4 - اگر مقتدى اپنى نماز ميں بھول جائے اور وہ مسبوق بھى نہ ہو يعنى اس نے سب ركعات امام كے ساتھ ادا كى ہوں، مثلا ركوع ميں سبحان ربى العظيم بھول جائے تو اس پر سجدہ نہيں ہے؛ كيونكہ اس كى جانب سے امام متحمل ہے، ليكن فرض كريں اگر مقتدى سے ايسى غلطى ہو گئى جس سے كوئى ايك ركعت باطل ہو جاتى ہو، مثلا سورۃ فاتحہ پڑھنا بھول گيا تو اس حالت ميں امام كے سلام پھيرنے كے بعد وہ ركعت ادا كرنا ضرورى ہے جو باطل ہوئى تھى پھر تشھد پڑھ كر سلام كے بعد سجدہ سہو كرے.
5 - اگر مقتدى نماز ميں بھول جائے اور وہ مسبوق ہو يعنى اس كى كوئى ركعت رہتى ہو تو وہ سجدہ سہو ضرور كرے گا چاہے وہ امام كے ساتھ نماز ادا كرتے ہوئے بھولا ہو يا باقى مانندہ نماز ادا كرتے ہوئے بھول جائے؛ كيونكہ اس كے سجدہ كرنے ميں امام كى مخالفت نہيں ہوتى اس ليے كہ امام اپنى نماز مكمل كر چكا ہے.
ديكھيں: رسالۃ فى احكام سجود السھو تاليف شيخ ابن عثيمين
الشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
۔____________________________________________________________________________________
ما حكم السهو في الصلاة
نماز ميں بھولنے اور غلطى كرنے كا كيا حكم ہے ؟
۔─━══★◐★══━──━══★◐★══━─
ينبغي للمصلي إذا حضر وقت الصلاة أن يتخلى عن كل شيء من أعمال الدنيا وشواغلها حتى يتجه ذهنه وتفكيره إلى عبادة ربه قدر الطاقة، فإذا تطهر ووقف في الصلاة وقف خاشعا تاليا لكتاب ربه أو مستمعا له متدبرا لمعانيه ولما يقوله من أذكار في صلاته ولا يستسلم للشيطان ووساوسه بل عندما يعرض له يقبل على صلاته ويتعوذ بالله من الشيطان الرجيم،
الحمد للہ:
جب نماز كا وقت ہو جائے تو انسان كے ليے ہر قسم كے دنياوى مشغولات اور كام كاج سے فارغ ہونا ضرورى ہے، تا كہ اس كا ذہن اور سوچ حسب استطاعت مكمل يكسوئى كے ساتھ اللہ تعالى كى عبادت كى طرف متوجہ ہو جائے، چنانچہ جب وہ طہارت كر كے نماز كے ليے كھڑا ہو تو نماز ميں خشوع و خضوع كے ساتھ اللہ تعالى كى كتاب قرآن مجيد كى قرآت كرتے يا پھر سنتے ہوئے كھڑا ہو، اور اس كے معانى پر غور و فكر اور تدبر كرے، اور نماز ميں جو دعائيں اور اذكار پڑھ رہا ہے اس كى معانى كو سمجھے، اور اپنے آپ كو شيطان اور اس كے وسوسوں كے سپرد مت كرے.
بلكہ جب ايسا ہو تو اپنى نماز كى طرف متوجہ ہو اور اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم پڑھے،
اس كى دليل ابو العلاء بن شخير كى درج ذيل حديث ہے:
لما روي عن أبي العلاء بن الشخير أن عثمان قال: يا رسول الله حال الشيطان بيني وبين صلاتي وبين قراءتي، قال: ( ذاك شيطان يقال له خنزب، فإذا أنت حسسته فتعوذ بالله منه واتفل عن يسارك ثلاثا ) قال ففعلت ذاك فأذهبه الله عز وجل عني أخرجه أحمد 4/216، ومسلم 4/1728 -1729، وعبدالرزاق 2/85، 499 برقم (2582، 4220) وابن أبي شيبة 7/419، 10/353، وابن السني في عمل اليوم والليلة ص 272 برقم (577).
علاء بن شخير بيان كرتے ہيں كہ عثمان رضى اللہ تعالى نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم شيطان ميرے اور ميرى نماز اور قرآت كے مابين حائل ہو جاتا ہے؟ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يہ شيطان ہے جسے خنزب كہتے ہيں، جب تمہيں اس كا احساس ہو تو تم اس سے اللہ كى پناہ طلب كرو ( اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم پڑھو ) اور اپنى بائيں جانب تين بار تھو تھو كرو "
وہ كہتے ہيں: ميں نے جب ايسا كيا تو اللہ تعالى نے شيطان كو مجھ سے دور كر ديا "
مسند احمد ( 4 / 216 ) صحيح مسلم ( 4 / 1728 - 1729 ) مصنف عبد الرزاق ( 2 / 85، 499 ) حديث نمبر ( 2582 , 4220 ) ابن ابى شيبۃ ( 7 / 419 ، 10 / 353 ) اور ابن سنى نے عمل اليوم والليۃ صفحہ نمبر ( 272 ) حديث نمبر ( 577 ).
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 40 ).
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء 7/40.

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ
رسالۃ فی سجود السہو'
از مجموع فتاویٰ ورسائل العثیمین:14؍94 تا 105
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search