السلام علیکم سسٹر امید ہے اللء کی رحمت سے بعافیت ہونگی
میرا سوال ہے کہ
ایسا بی نماز شخص جواپنی مرضی سے کبھی نماز پڑھ لیتا ہے کبھی چھوڑ دیتا ہے اور اکثر چھوڑتا ہے اس کا ذبیح کیا ہوا جانور کس حکم میں ہیں کیا وہ قربانی کا جانور ذبح کرے تو اس کا گوشت کھنا جائز ہے یا نہیں
جزاک اللہ خیرواحسن الجزاء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَعَلَيــْـــــــكُم السَّــــــــلاَم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
بلا شبہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے جہاں کچھ علماء میں شدت ہے ، لیکن اس مسئلے میں راجح قول یہی ہے کہ جو شخص مطلقاً ہمیشہ کے لئے تارک الصلوٰۃ ہے تو اس کا ذبیحہ نہ کھایا جائے۔
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کہتے ہیں
اس سلسلے میں ایک بڑا مسئلہ ترکِ صلوٰۃ ہے۔ بعض علماء کے نزدیک تارک الصلوٰۃ کافر ہے اور بعض اسے فاسق و فاجر کہتے ہیں۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے کتاب الصلوٰۃ میں فریقین کے دلائل جمع کر دیئے ہیں۔ محدث البانی رحمہ اللہ اور بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ تارک الصلوٰۃ کافر نہیں ہے۔
محدث عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: ‘‘ بے نماز کا ذبیحہ مسلمانوں کو کھانا جائز ہے یا نہیں؟’’ تو انہوں نے جواب دیا:‘‘ بے نماز بے شک کافر ہے خواہ ایک نماز کا تارک ہو یا سب نمازوں کا کیونکہ (مَنْ تَرَکَ الصَّلٰوۃَ مُتَعَمَّدًا فَقَدْکَفَرَ) عام ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر تارکِ صلوٰۃ کافر ہے رہا بے نماز کے ذبیحہ کا حکم سووہ اہلِ کتاب کے حکم میں ہونے کی وجہ سے درست ہو سکتا ہے خواہ نیک زبح کرنے والا پاس موجود ہو یا نہ، ہاں نیک ہر طرح سے بہتر ہے اور بے نماز جب کافر ہوا تو اس کا کھانا مثل عیسائی کے کھانے کے سمجھ لینا چاہیئے ۔ حتی الوسع اس سے پرہیز رکھے عند الضرورۃ کھا لے ’’ (فتاویٰ اہلِ حدیث ج ۲ص ۶۰۴)
ہمارے استاد محترم حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ سے پوچھا گیا: ‘‘ بے نماز کے متعلق اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ کافر ہے اگر یہ بات درست ہے تو کیا بے نماز کا ذبیحہ حلال ہے یا حرام؟’’ تو انہوں نے جواب دیا: ‘‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُو الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّھُمْ) [آج حلال ہوئی تم کو سب پاک چیزیں اور اہلِ کتاب کا کھانا تم کو حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کو حلال ہے۔]عام مفسرین نے اس مقام پر طعام کی تفسیر ذبیحہ فرمائی ہے تو جب اہلِ کتاب کا ذبیحہ حلال ہے تو کلمہ پڑھنے والوں کا ذبیحہ بھی حلال ہے خواہ وہ نماز نہ پڑھتے ہوں کیونکہ وہ اہلِ کتاب تو ہیں ہی۔ ہاں اگر بوقت ذبح غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو وہ ذبیحہ حرام ہے خواہ ذبح کرنے والا پکا نمازی ہی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (وَلَا تَاْ کُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللہِ عَلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ) [اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر نام نہیں لیا گیا اللہ کا اور یہ کھانا گناہ ہے]نیز فرمایا: (وَمَآ اُھِلَّ لِغِیْرِ اللہِ بِہٖ) [اور جس جانور پر نام پکارا جائے اللہ کے سوا کسی اور کا ]۱ ؍۴؍۱۴۱۸ھ’’ (احکام و مسائل ج ۱ص ۴۵۲)
حافظ عبدالمنان حفظہ اللہ سے کسی شخص نے پوچھا: ‘‘ بازاری گوشت کیسا ہے حلال یا حرام؟ جیسا کہ پاکستان کے اکثر قصاب نماز اور دین کے بارہ میں بالکل صفر ہیں اور ان کا عقیدہ تو ماشا ء اللہ اور بھی نگفتہ بہ ہوتا ہے کیا ان کا ذبیح مشرک کے زمرہ میں آتا ہے؟’’حافظ صاحب نے جواب دیا: ‘‘ حلال ہے کیونکہ اہلِ کتاب کا ذبیحہ حلال ہے اور معلوم ہے کہ اہلِ کتاب کافر بھی ہیں اور مشرک بھی۔ پاکستان کے قصاب بہر حال اہلِ کتاب سے اچھے ہی ہیں پھر یہ کلمہ بھی پڑھتے ہیں مگر ایک شرط ہے کہ بوقت ذبح وہ بِسْمِ اللہِ وَاللہُ اَکْبَرُ پڑھتے ہوں غیر اللہ کے نام پر ذبح نہ کرتے ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَلَا تَأْ کُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللہِ عَلَیْہِ) [اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر نام نہیں لیا گیا اللہ کا] ۲۱؍۵؍۱۴۱۷ھ’’(احکام و مسائل۱؍۴۵۲)
اس مسئلے میں راجح قول یہی ہے کہ جو شخص مطلقاً ہمیشہ کے لئے تارک الصلوٰۃ ہے تو اس کا ذبیحہ نہیں کھایا جائے۔
ابوالبشر الشیخ مبشر احمد ربّانی کہتے ہیں
بےنماز شخص اگرچہ مسلمان نہیں ہے لیکن ان کا ذبیحہ حلال ہے، اگر وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کریں کیونکہ غیر مسلموں میں سے اہل کتاب یہودی اور عیسائی کا ذبیحہ بھی حلال ہے بشرطیکہ وہ اللہ کے نام پر ذبح کریں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اليَومَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبـٰتُ وَطَعامُ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حِلٌّ لَكُم وَطَعامُكُم حِلٌّ لَهُم...﴿٥﴾... سورةالمائدة
"آج کے دن تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئیں اور ان لوگوں کا کھانا جنہیں کتاب دی گئی تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے۔"
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں "جلالین" میں لکھا ہے کہ
" وطعام الذين اوتوا الكتاب اى ذبائح اليهود والنصارى "
اہل کتاب کے کھانے سے مراد یہودونصاریٰ کے ذبیحے ہیں۔
علامہ عبدالرحمان بن ناصر السعدی فرماتے ہیں
"{ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ ْ} أي: ذبائح اليهود والنصارى حلال لكم -يا معشر المسلمين- دون باقي الكفار، فإن ذبائحهم لا تحل للمسلمين، وذلك لأن أهل الكتاب ينتسبون إلى الأنبياء والكتب. وقد اتفق الرسل كلهم على تحريم الذبح لغير الله، لأنه شرك، فاليهود والنصارى يتدينون بتحريم الذبح لغير الله، فلذلك أبيحت ذبائحهم دون غيرهم "
(تیسیر الکریم الرحمن ص 529 ج 1 مطبوعہ دارالسلام ریاض)
اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اے مسلمانوں کے گروہ یہودونصاریٰ کے ذبیحے تمہارے لیے حلال ہیں باقی کفار کے سوا ان کے ذبیحت مسلمانوں کے لیے حلال نہیں۔ اہل کتاب کے ذبیحے اس لیے حلال ہیں کہ یہ انبیاء اور کتب سماویہ کی طرف منسوب ہوئے ہیں اور تمام رسل علیہم السلام غیراللہ کے ذبیحت کی حرمت پر متفق ہیں اس لیے کہ یہ شرک ہے سو یہودونصاریٰ غیراللہ کے ذبیحے کی حرمت کو اختیار کرنے والے تھے۔ اس لیے ان کے ذبیحت مسلمانوں کے لیے حلال ٹھہرائے گئے جب کہ دیگر کفار کے ذبیحے حرام ہیں۔
اہل کتاب میں کافر بھی ہیں اور مشرک بھی ہیں اور پاکستان کے قصان بہرحال اہل کتاب کے کافروں اور مشرکوں سے بہتر ہیں اور یہ کلمہ شریف بھی پڑھتے ہیں۔ لیکن اگر ذبح کرتے وقت اللہ کے علاوہ کسی اور کا نام لیا جائے یا یہودو و عیسائی مسیح علیہ السلام کا نام لیں یا کسی اور غیراللہ کا تو یہ جانور حرام ہوں گے جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے۔
﴿وَلا تَأكُلوا مِمّا لَم يُذكَرِ اسمُ اللَّهِ عَلَيهِ وَإِنَّهُ لَفِسقٌ ...﴿١٢١﴾... سورةالانعام
اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا اور یہ کھانا گناہ ہے۔
لہذا کلمہ گو بے نمازیوں کا ذبیحہ حلال ہے کیونکہ یہ اللہ کے قرآن کا انکار نہیں کرتے اور نہ ہی دیگر عقائد دینیہ کے منکر ہیں۔ ان کی گمراہیاں، کفروشرک الگ ہے۔ ذبیحہ پر اس کا اثر نہیں پڑتا، اگر یہ اللہ کا نام لے کر ذبح کریں۔
دیکھیے : آپ کے مسائل اور ان کا حل/جلد:3/کتاب الاضحیہ/صفحہ410
اور بے نماز قصاب کی خدمات لینے کے بارے میں الشیخ عبدالستار الحماد حفظہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں :
قربانی کا جانور خود ذبح کرنا چاہئے اور ذبح کرنے کا طریقہ بھی اچھی طرح سیکھنا چاہیے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر تریسٹھ اونٹ خود اپنے ہاتھ سے نحر کئے تھے، آپ اپنے ہاتھ میں موجود چھوٹا نیزہ اونٹوں کی گردنوں پر مارتے تھے۔ (تحفۃ المودود،ص79)
اسی طرح مدینہ طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے لئے دو مینڈھے خود اپنے ہاتھ سے ذبح کئے تھے۔ (صحیح مسلم،الحج:2950)
اس لئے قربانی کرنے والے کو اپنی قربانی خود ذبح کرنی چاہیے البتہ بوقتِ ضرورت قصاب سے مدد لی جا سکتی ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ اصحاب الحدیث/جلد:4/صفحہ:354
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ
وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ
بِالصّٙوٙاب
Post a Comment