اسلام میں پسند کی شادی
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
تحریر : مسزانصاری
اسلام میں پسند کی شادی کی ممانعت نہیں ، بلکہ اسلام نے طرفین کے دلوں میں محبت پیدا کرنے کے لیے مرد و عورت کو شادی سے پہلے ایکدوسرے کو دیکھنے کی اجازت دی ہے
فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ
جوتمہیں پسند آئیں دو دو اور تین تین اور چار چار کے ساتھ نکاح کرو،
(سورہ نساء ،آئیت نمبر_3)
لڑکی کے ولی کی بقائمیٔ ہوش و حواس بلاجبر و اکراہ اجازت و رضا اور لڑکی کی بقائمیٔ ہوش و حواس بلاجبر و اکراہ اجازت و رضا ، تکمیلِ نکاح کے اہم عناصر ہیں ۔
رہی بات پسند کی شادی پر لڑکی کا ولی کے خلاف جانا ، تو اسلام نے عورت پر کسی بھی معاملے میں ظلم نہیں کیا ہے اور نا ہی والدین کو اجازت دی ہے کہ وہ نکاح کے معاملے میں اپنی اولاد کی پسند یا نا پسند کو نظر انداز کر کے مئوجبِ ظلم بنیں ۔ اگر لڑکی کی پسند شرعئی اصولوں سے متصادم ہو اور والدین دینی اور عقلی اعتبار سے معتبر ہوں تو لڑکی کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر والوں کی رائے سے باہر نہ جائے بلکہ ان کی رائے قبول کرلے ، لیکن اگر عورت کےولی بغیر کسی صحیح سبب کے رشتہ رد کریں یا ان کا رشتہ اختیار کرنے میں معیار ہی غیر شرعی ہو مثلا اگر وہ صاحب دین اوراخلاق والے شخص پر کسی مالدار فاسق کو مقدم کریں ۔
تو بالغ لڑکی اپنے ولی کے بہ نسبت اپنی ذات کے متعلق زیادہ حقدار ہے ، اس صورت میں لڑکی کےلیے جائز ہے کہ وہ اپنا معاملہ شرعی قاضی تک لے جائے تا کہ اسے شادی سے منع کرنے والے ولی کی ولایت ختم کرکے کسی اورکو ولی بنایا جائے ۔
یہ فطری بات ہے کہ انسان اپنی ہر چیز کو پسند کر کے ہر طرح سے جانچ کر لیتا ہے ، جوتے سے لے کر لباس تک میں اسکی پسند کا بہت دخل ہوتا ہے ، آپ ایک وقت کا ناپسندیدہ کھانا خوش ہو کر نہیں کھاسکتے تو اگر ساری زندگی آپ کو وہ کھانا اور ضروریاتِ زندگی میں شامل ا شیاء آپکی پسند کے برخلاف دے دی جائیں تو ایمانداری سے بتائیے کہ آپکی زندگی جو آپ کے رب نے ایک ہی بار دی عذاب نہیں بن جائے گی ؟؟؟
اسی انسانی فطرت کو اللہ تعالیٰ کے کامل دین نے بھی اہمیت دی اور مرد و عورت کی پسند کو ایجاب و قبول کے لیے ناگزیر قرار دیا ، اور اسی فطرت کی وجہ سے اللہ نے مردوں کو نکاح کے لیے فرمان ہی یہ نازل کیا کہ
فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ
جوتمہیں پسند آئیں دو دو اور تین تین اور چار چار کے ساتھ نکاح کرو،
اور یاد رکھیے کہ فطرت میں یہ بھی شامل ہے کہ ہر انسان اپنی پسندیدہ چیز کو بار بار دیکھنا ،کھانا پسند کرتا ہے اورنا پسندیدہ چیز وہ انسان ہو یا کھانا اسے بار بار دیکھنا،کھانا پسند نہیں کرتا ۔ جب کسی عورت یا مرد کی شادی اس فطرت کے مطابق ناپسند کی ہوگی تو انکی ساری زندگی کا اندازہ لگائیے کہ کس کرب و بلا سے معمور ہوگی ۔ اور اس کرب و بلا کے ایک ایک لمحے کا وبال ان والدین کی گردنوں پر ہوگا جنہوں نے اپنی اولاد کی جائز پسند کو بڑی بے رحمی سے اپنی پسند اور مرضی کے فیصلوں سے روند ڈالا ، ایسے والدین اللہ تعالیٰ کے دربار میں اللہ تعالیٰ کی سخت باز پرس کے لیے تیار رہیں ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں،
جمیلہ بنت سلول رضی اللہ عنہا،
نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس
آ کر عرض کیا:
اللہ کی قسم میں ( اپنے شوہر ) ثابت پر کسی دینی و اخلاقی خرابی سے غصہ نہیں کر رہی ہوں، لیکن میں مسلمان ہو کر کفر ( شوہر کی ناشکری ) کو ناپسند کرتی ہوں، میں ان کے ساتھ نہیں رہ پاؤں گی کیونکہ شکل و صورت سے وہ مجھے ناپسند ہیں،
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا ان کا دیا ہوا (حق مہر) باغ واپس لوٹا دو گی ؟ انہوں نے کہا: ہاں میں لوٹا دوں گی،( بلکہ ایک روایت میں ہے کہ اس سے بھی زیادہ لوٹا دوں گی،)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کو حکم دیا کہ اپنی بیوی جمیلہ سے اپنا باغ لے لیں، اور زیادہ نہ لیں (اور اسے آزاد کر دیں)
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر_2056)
حکم الحدیث صحیح
درج بالا حدیث میں یہ بات ثابت ہے کہ صحابیہ کو انکا شوہر پسند نہیں تھا، وہ انکے ساتھ رہ کر انکو خوش نہیں رکھ سکتی تھیں، کیا صحابیات اور صحابہ کرام سے بڑھ کوئی نیک ہو گا؟
مگر غور کریں، وہ کوشش کے باوجود بھی اپنے شوہر کو خوش نہیں رکھ سکیں، ان سے محبت نہیں کر سکیں،
اور وہ نہیں چاہتی تھیں کہ یہ عمل مجھے شوہر کا نافرمان بنا دے اور پھر اللہ بھی ناراض ہو،
اب اگر نکاح کے وقت ان سے پوچھا جاتا تو یہ طلاق لینے کی نوبت نا آتی،
دین داری ، سمجھ بوجھ اپنی جگہ، مگر پسند نا پسند اپنی جگہ ۔
بلا شبہ شادی کے معاملے میں اولاد کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کی اطاعت کرے ، والدین کی اطاعت کا حکم ہمارے رب نے حقوق اللہ کے فورًا بعد حقوق العباد میں سرِ فہرست رکھا ہے ، کیونکہ وہ اس کی مصلحت کوزيادہ جانتے ہیں ، وہ صرف یہ چاہتے ہيں کہ ہماری بیٹی یا ہمارا بیٹا اپنے زوج کےساتھ آسودہ اور سعادت کی زندگی بسر کرے جو اس کی حرمت کا خیال رکھے اوراس کے حقوق کی بھی پاسداری کرنے والا ہو ۔
اللہ تعالیٰ نے ولایت کا بار اسی لیے قریب کے رشتہ داروں پر ڈالا کیونکہ قریب کے رشتہ داروں میں لڑکی کے لیے بہ نسبت دور کے رشتہ داروں کے زیادہ محبت ہوتی ہے ، جو سرپرست رشتہ کے اعتبار سے جتنا قریب ترین ہوگا اتنا ہی اس کے دل میں اپنے زیر سرپرست کے لیے شفقت و ہمدردی زیادہ ہوگی اور وہ اس کے مفادات کا اتنا ہی زیادہ دلجمعئی سے تحفظ کرے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ باپ کو اس معاملہ میں اولیت حاصل ہے کیونکہ باپ کے دل میں موجزن بیٹی کی محبت کےسمندر کی گہرائی اور وسعت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ۔
یہاں ایک بڑا افسوسناک پہلو میں بیان کروں گی کہ ایک لڑکی کا والد یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ میری بیٹی میری ولایت کی عدم موجودگی میں نکاح نہیں کر سکتی ۔ اللہ تعالیٰ کے دیے گئے اس حق پر وہ باپ جو شریعت کا وفادار ہے ، اللہ تعالیٰ کی جہنم سے ڈرتا ہے ، اور ڈرتا ہے اس بات سے کہ اگر میں نے زمین پر عدل نہیں کیا تو جس روز آسمان پر اللہ تعالیٰ اپنی عدالت لگائے گا اس روز میرا جرم میری ہلاکت کا باعث بنے گا ، تو ایسا باپ اپنی بیٹی کی جائز پسند پر اپنی جائز پسند کو قربان کرنے میں ذرا تامل نہیں کرتا ، مگر وہ باپ جس پر بیٹی کی شرعًا درست پسند پر انا سوار ہوجائے اور اسکی پدرانہ شفقت پر اس کا آمرانہ روپ غالب آجائے تو وہ سخت خسارے میں ہے :
إذا أتاكم من ترضون خلقه ودينه فزوجوه إلا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد عريض‘‘
"جب تمہارے پاس ايسا شخص آئے جس كے دين اور اخلاق كو تم پسند كرتے ہو تو تم اس كے ساتھ نكاح كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں بہت زيادہ فتنہ و فساد برپا ہو گا"
- سنن ترمذی (ابواب النکاح،بَابُ مَا جَاءَ إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ فَزَوِّجُوهُ،نمبر ،امام ۱۰۸۵)
- امام البانی رحمہ اللہ نے اس کو حسن لغیرہ کہا ہے ۔
صحابیات سے پسند کی شادی ثابت ہے
ہم سائل عبدالرحمٰن پاکستان کے سوال میں مذکورہ سائلہ کے والدین کو نصیحت کرتے ہیں کہ اگر تو آپ کی بیٹی اپنے شریکِ حیات کے انتخاب میں شرعئی اصولوں پر پوری اترتی ہے اور آپ اپنی لختِ جگر پر اسکی نا پسند کو مسلط کرنے میں اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ اسکے ان آنسووں سے چشم پوشی کر رہے ہیں جو اسکی آنکھوں سے نکل کر بتقاضہ فرمانبرداری اور اطاعتِ والدین باہر نہیں بلکہ اسکے دل میں گر کر اسے آزردہ اور زود رنج کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے ڈر جائیے ۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ولایت کا حق ضرور دیا ہے لیکن آپ کو ولی بنا کر اللہ تعالیٰ آپکی بچی کی اعانت سے دستبردار نہیں ہوا ہے ، جب آپ اپنی لختِ جگر کے لیے مہر و وفا ، پدرانہ شفقت کے جذبات اور ولایت کے شرعئی تقاضوں سے عاری ہوجائیں گے تو دراصل آپ اپنی بچی کے مفاد کی محافظت کے فریضے سے دستبردار ہو رہے ہیں ۔ آپ کو شریعت نے حقِ ولایت ضرور دیا ہے لیکن اسکی حدود بیان کر دی گئی ہیں ، ان حدود کے مطابق آپکو اتنے کھلے اختیا رات نہیں دئیے گئے کہ آپ جہاں چا ہے اپنی بچی کا نکاح کر دیں ، اور نہ ہی آپ کی بچی کو شریعت کھلی آزادی دیتی ہے کہ وہ جہاں چاہے والدین کی مرضی کے بغیر نکاح کرے ، بلکہ شریعت کی بہترین تعلیمات ایک دوسرے کے جذبا ت کا احترا م کرتے ہوئے ہمدردی اور شفقت کی فضا میں نکاح کے فریضے کی انجام دہی کی طرف رغبت دلاتی ہیں ۔
یاد رکھیے کہ جب کسی مرد کا دل کسی لڑکی سے معلق ہو جس سے اس کا نکاح کرنا جائز ہے یا کسی لڑکی نےکسی لڑکے کو پسند کرلیا ہو تو اس کا حل شادی کے علاوہ کچھ نہيں ، اعتبار تو دین اوراخلاق کا ہے ۔
اے بچی کے ولی ! آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے متعلق علم ہونا چاہیے :
دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے ۔
سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1847 ) بوصیری رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح کہا ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے بھی السلسلۃ الصحیحۃ ( 624 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
آپ کو ہم آپکی انا اور ضد کے برخلاف عدل اور شریعت کی پاسداری کی نصیحت کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا اور نا ہی اپنے بندوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی دوسرے بندے پر ناجائز حاکمیت مسلط کر کے ظلم کے مرتکب بنیں ۔
ہم آپ کے شفقتِ پدرانہ کے سمندر میں آپکی آغوشِ محبت میں پل بڑھ کر بالغ ہونے والی بچی کے لیے جنبش پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ للہ اپنی معصوم بچی پر جو آپکی کمزور رعایا میں سے ہے ظلم نا کیجیے ، باپ اپنی بچی کے لیے ہر مصیبت کی گھڑی میں وہ واحد پناہ گاہ ہوتا ہے جہاں پہنچ کر بچی تمام فکرات اور خوف سے آزاد ہو جاتی ہے ، اس پناہ گاہ سے اپنی بچی کا اعتماد نا اٹھنے دیجیے ، آپکی بچی آپ کو اپنے دل کی گہرائیوں سے پیار کرتی ہے ، اسکے دل کی گہرائیوں میں جھانکیے تو آپ کو ایک چھوٹی سی سلطنت نظر آئے گی جسکے مسند پر آپ اور اسکی ماں بادشاہ اور ملکہ کی طرح براجمان ہیں ، اپنی بچی کی اس محبت کی سلطنت کو نفرتوں کی آندھیوں سے برباد نا کیجیے ۔ ہم نے بے شمار ہنستے بستے گھروں کو اجڑتے دیکھا ہے جہاں باپ کے آمرانہ فیصلوں سے بچیاں زندہ درگور ہوئیں تب باپ کے سینے میں موجزن محبت کے سمندر کا سکوت اس طرح ٹوٹا کہ باپ بھی خوش نا رہ سکا ، دل کے دورے سے گزر گیا یا مجسمہ رنج و الم بن گیا ۔
آپ کو ہماری التجا ہے کہ للہ اللہ تعالیٰ کے قانون سے نا ٹکرائیے اور شیطان کے ہاتھوں کا کھلونا نا بنیے جو آپکے گھر کو ماتم کدہ بنانے کے تانے بانے بُن رہا ہے ۔ اگر تو طرفین کی محبت میں اللہ تعالی کی شرعی حدود نہیں توڑی گئيں اورمحبت کرنے والوں نے کسی معصیت کا ارتکاب نہیں کیا تو محبت کی شادی جائز ہے ، امید کی جاسکتی ہے کہ آپکی بچی کی ایسی محبت سے انجام پانے والی شادی زيادہ کامیاب ہوگی ، کیونکہ یہ دونوں کی ایک دوسرے میں رغبت کی وجہ سے انجام پائي ہے ۔اپنی بچی کی پسند کو شریعت کی کسوٹی پر پرکھیے اور اپنی بچی کے سر پر دستِ شفقت رکھ دیجیے تاکہ اس معصوم کلی پر بہار کی خوشگوار ہوائیں اسے یقین دلائیں کہ تیرے باپ کے لیے تیری خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں ، اسے یقین دلائیے کہ اے میری بچی تیری جوانی تک کے سفر میں تجھے دھوپ کی تمازت اور طوفانوں کے جھکڑوں سے بکھرنے نہیں دیا تھا تو آج بھی تیری معصوم خواہش کو اپنی انا کی بھینٹ نہیں چڑھنے دوں گا ۔
اے بچی کے ولی !! آپ کو اللہ تعالیٰ نے آپکے گھر کی حاکمیت عطا فرمائی ، یاد رکھیے اللہ تعالیٰ ہر حاکم سے باز پرس فرمائے گا ، اپنی رعایا پر جانے انجانے میں ظلم نا کیجیے ، صورتِ مسئولہ میں لڑکی حق بجانب ہے ، اگر آپ نے اسکے حق کو تسلیم نہیں کیا اور ازروئے شریعت فیصلہ نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ سننے والا دیکھنے والا اور مخفی و اعلانیہ باتوں کو جاننے والا ہے ۔
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا
مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه
بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ
تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ
عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Post a Comment