شرعی دم پر اجرت لینا جائز ہے
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
❖ • ─┅━━━٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭━━━┅┄ • ❖
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
❖ • ─┅━━━٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭━━━┅┄ • ❖
⛔ شرعئی دم پر اجرت لینا جائز ہے :
─━══★◐★══━─
─━══★◐★══━─
بیماروں کو دم کرنا انہیں دعوت دینے ، انکی اصلاح اور رہنمائی کرنے میں بہت ہی مفید اور کارگر ثابت ہوتا ہے ، چاہے اس کے متبادل کے طور پر کوئی ذریعہ معاش ہی کیوں نہ مل جائے، کیونکہ اس سے دوسروں کا بھلا ہوگا، اور انہیں فائدہ ہوگا۔ لہٰذا شرعی دم کرنا ، جبکہ لوگوں کو اسکی ضرورت بھی ہے، تو دم کرنے والے پر اس کام کے بدلے میں کچھ اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال پوچھا گیا:
ہم کچھ ایسے لوگوں کے بارے میں سنتے ہیں جو قرآن مجید کے ذریعے علاج کرتے ہیں، یہ لوگ پانی یا خوشبو دار تیل پر جادو، نظر بد، اور آسیب زدہ کے علاج کیلئے قرآنی اور مسنون ثابت شدہ دعائیں پڑھتے ہیں، اور اپنے اس عمل پر کچھ اجرت بھی لیتے ہیں، تو کیا یہ شرعی طور پر جائز ہے، اور کیا تیل یا پانی وغیرہ پر قرآنی دعائیں وغیرہ پڑھنے کا وہی اثر ہے جو براہِ راست مریض پر پڑھنے کا ہوتا ہے؟
ہم کچھ ایسے لوگوں کے بارے میں سنتے ہیں جو قرآن مجید کے ذریعے علاج کرتے ہیں، یہ لوگ پانی یا خوشبو دار تیل پر جادو، نظر بد، اور آسیب زدہ کے علاج کیلئے قرآنی اور مسنون ثابت شدہ دعائیں پڑھتے ہیں، اور اپنے اس عمل پر کچھ اجرت بھی لیتے ہیں، تو کیا یہ شرعی طور پر جائز ہے، اور کیا تیل یا پانی وغیرہ پر قرآنی دعائیں وغیرہ پڑھنے کا وہی اثر ہے جو براہِ راست مریض پر پڑھنے کا ہوتا ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
مریض پر دم کرنے کے بعد اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس لئے کہ صحیح بخاری اور مسلم میں ثابت ہے کہ : "صحابہ کرام کی ایک جماعت کسی عرب قبیلے کے پاس گئے تو انہوں نے انکی کوئی ضیافت نہیں کی، اسی دوران انکے سربراہ کو کسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا، انہوں نے ا س کے علاج کیلئے تمام حربے آزما لئے؛ لیکن جب کوئی فائدہ نہ ہوا تو یہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور انہیں کہا کہ: "کیا تم میں سے کوئی دم کرنے والا ہے؟ ہمارے سربراہ کو کسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا ہے" تو صحابہ کرام نے کہا: "ہاں ہے!، لیکن تم نے ہماری ضیافت نہیں کی اس لئے ہم اجرت لئے بغیر دم نہیں کرینگے" چنانچہ صحابہ کرام نے بکریوں کے ایک ریوڑ کے بدلے میں دم کرنے کیلئے معاہدہ کر لیا، تو کسی صحابی نے سورہ فاتحہ پڑھ کر اسے دم کیا تو شفا یاب ہو گیا، قبیلے والوں نے حسبِ معاہدہ بکریوں کا ریوڑ دے دیا، اب صحابہ کرام نے آپس میں یہ صلاح مشورہ کیا کہ : اس وقت تک اس ریوڑ کے ساتھ کچھ نہیں کرینگے جب تک ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر نہ دے دیں، چنانچہ جس وقت صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں خبر دی، تو آپ نے فرمایا: (تم نے ٹھیک کیا)"
بخاری:(2115) مسلم: (4080)
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"ایک آدمی لوگوں پر پیسے لیکر دم کرتا ہے، اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ دم ہی آتے ہیں، اس بارے میں وہ معتمد اہل علم کی رائے بھی لیتا ہے، [اسکا کیا حکم ہے؟]"
مریض پر دم کرنے کے بعد اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس لئے کہ صحیح بخاری اور مسلم میں ثابت ہے کہ : "صحابہ کرام کی ایک جماعت کسی عرب قبیلے کے پاس گئے تو انہوں نے انکی کوئی ضیافت نہیں کی، اسی دوران انکے سربراہ کو کسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا، انہوں نے ا س کے علاج کیلئے تمام حربے آزما لئے؛ لیکن جب کوئی فائدہ نہ ہوا تو یہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور انہیں کہا کہ: "کیا تم میں سے کوئی دم کرنے والا ہے؟ ہمارے سربراہ کو کسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا ہے" تو صحابہ کرام نے کہا: "ہاں ہے!، لیکن تم نے ہماری ضیافت نہیں کی اس لئے ہم اجرت لئے بغیر دم نہیں کرینگے" چنانچہ صحابہ کرام نے بکریوں کے ایک ریوڑ کے بدلے میں دم کرنے کیلئے معاہدہ کر لیا، تو کسی صحابی نے سورہ فاتحہ پڑھ کر اسے دم کیا تو شفا یاب ہو گیا، قبیلے والوں نے حسبِ معاہدہ بکریوں کا ریوڑ دے دیا، اب صحابہ کرام نے آپس میں یہ صلاح مشورہ کیا کہ : اس وقت تک اس ریوڑ کے ساتھ کچھ نہیں کرینگے جب تک ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر نہ دے دیں، چنانچہ جس وقت صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں خبر دی، تو آپ نے فرمایا: (تم نے ٹھیک کیا)"
بخاری:(2115) مسلم: (4080)
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"ایک آدمی لوگوں پر پیسے لیکر دم کرتا ہے، اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ دم ہی آتے ہیں، اس بارے میں وہ معتمد اہل علم کی رائے بھی لیتا ہے، [اسکا کیا حکم ہے؟]"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر حقیقت ایسے ہی ہے جیسے بیان کی گئی ہے کہ آپ مریضوں کا علاج شرعی دم کے ساتھ کرتے ہیں، اور آپ لوگوں کو انہی الفاظ سے دم کرتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں، اور اس بارے میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر معروف کتابوں میں ذکر کردہ الفاظِ دم ہی استعمال کرتے ہیں، اسی طرح علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی جانب سے "زاد المعاد" میں اور دیگر اہل السنہ و الجماعہ کی کتب سے آپ لیتے ہیں تو آپکا عمل جائز ہے، آپکو اس کوشش اور جد و جہد پر اجر بھی ملے گا، اور اگر آپ اس عمل کے بدلے میں کچھ اجرت بھی لیتے ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ آپ کے سوال میں ذکر کردہ حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اس کام کی دلیل ہے"
"اگر حقیقت ایسے ہی ہے جیسے بیان کی گئی ہے کہ آپ مریضوں کا علاج شرعی دم کے ساتھ کرتے ہیں، اور آپ لوگوں کو انہی الفاظ سے دم کرتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں، اور اس بارے میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر معروف کتابوں میں ذکر کردہ الفاظِ دم ہی استعمال کرتے ہیں، اسی طرح علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی جانب سے "زاد المعاد" میں اور دیگر اہل السنہ و الجماعہ کی کتب سے آپ لیتے ہیں تو آپکا عمل جائز ہے، آپکو اس کوشش اور جد و جہد پر اجر بھی ملے گا، اور اگر آپ اس عمل کے بدلے میں کچھ اجرت بھی لیتے ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ آپ کے سوال میں ذکر کردہ حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اس کام کی دلیل ہے"
⛔ قریبی مسجد سے امام کی آواز پر گھروں میں نماز پڑھنا
─━══★◐★══━━══★◐★══━─
─━══★◐★══━━══★◐★══━─
گھر میں مسجد کے امام کے پیچھے اقتدا کرتے ہوئے نماز پڑھنا صحیح نہیں ، مقتدی کی امام کے ساتھ نماز اس وقت صحیح ہوگي جب وہ مسجد میں ہو اورصفیں بھی ایک دوسرے سے ملیں ہوئي ہوں یا پھر مسجد سے باہر ہو اورصفیں مسجد سےباہر تک ایک دوسری سے ملی ہوئي ہوں تو پھرامام کے پیچھے نماز صحیح ہوگي ۔
مثلا اگر مسجد اندر سے بھر جائے اوربعض لوگ اندر جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مسجد کے باہر نماز ادا کریں تو صحیح ہوگا لیکن اس کے علاوہ کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ۔
لیکن اگر مسجد میں ابھی جگہ خالی ہو جہاں نماز پڑھی جاسکتی ہے تواس صورت میں مسجد سے باہر نماز ادا کرنا صحیح نہيں ۔
الشیخ محمدصالح حفظہ اللہ
الشیخ محمدصالح حفظہ اللہ
مستقل فتوی کمیٹی ( اللجنۃ الدائمۃ ) سے سوال کیا گيا :
❓جوشخص اپنے گھرمیں سپیکروں کے ذریعہ مسجد کے امام کی اقتداء میں نماز ادا کرے اورامام اورمقتدی کے مابین کسی بھی وسطہ سے اتصال نہ ہوتواس نماز کا حکم کیا ہوگا ، جیسا کہ مکہ اورمدینہ میں موسم رمضان اورحج میں ہوتا ہے ❓
مستقل فتوی کمیٹی ( اللجنۃ الدائمۃ ) کا جواب تھا 🔽
اس طریقہ سے ادا کی گئي نماز صحیح نہيں ، شوافع اورامام احمد رحمہ اللہ تعالی کا مسلک یہی ہے ، لیکن اگر صفیں اس کے گھر کے ساتھ متصل یعنی ملی ہوئي ہوں اورامام کو دیکھ کراور اس کی آواز سن کراقتدا کرنا ممکن ہو تو پھرصحیح ہے جس طرح اس کے گھر تک ملی ہوئي صفوں کی نماز صحیح ہے اس کی بھی صحیح ہوگي ۔
لیکن اگرمذکورہ شرط نہيں تو پھر نماز صحیح نہيں ہوگي ، کیونکہ مسلمان پر مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنا واجب ہے ، کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جواذان سننے کے بعد بھی نماز پڑھنے نہ آئے توبغیر کسی عذر کے اس کی نماز نہيں ہوتی ) سنن ابن اورمستدرک حاکم ، حافظ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ اس کی سند مسلم کی شرط پر ہے ۔
اوراس لیے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینے صحابی کو جنہوں نے اپنے گھر میں ہی نماز پڑھنے کے بارہ میں سوال کیا تھا فرمایا :
( کیا آپ اذان سنتے ہیں ؟ تووہ صحابی کہنے لگے جی ہاں میں اذان سنتا ہوں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو پھر اسے قبول کر ) صحیح مسلم ، اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔
مستقل فتوی کمیٹی ( اللجنۃ الدائمۃ ) ( 8 / 32 ) ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Post a Comment