کیا عورت عید اور جمعہ خطبہ وامامت کےساتھ پڑھا سکتی ہے؟
بِسْــــــــــــــــــــــ ـمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
╼ ⃟ ⃟⃟ ╼ کیا عورت عید اور جمعہ خطبہ وامامت کےساتھ پڑھا سکتی ہے؟ ╼ ⃟ ⃟⃟ ╼
╼ ⃟ ⃟⃟ ╼ عورت تین کاموں میں مردوں کی بالکل شریک نہیں۔
➊ رسالت و نبوت
➋امامت۔
➊ولایت
اللہ تعالیٰ کی سنت متواترہ کے بعد نبی اکرم اور صحابہ کرام کی سنت سے بھی یہی چیز ثابت ہوتی ہے۔ اللہ نے کسی عورت کو علی الاطلاق نبوت و رسالت عطا نہیں فرمائیں انبیاء نے کسی عورت کو امامت و سیادت نہیں سونپی۔
عورت عورتوں کی جماعت کروا سکتی ہے۔ نماز پڑھائے گی لیکن مردوں کی طرف صف سے باہر نکل کر نہیں کھڑی ہو گی بلکہ درمیان میں کھڑی ہو گی اور احناف تو اسے بھی مکروہ کہتے ہیں اور مردوں کو پڑھانے کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں بھی آتا ہے کہ وہ فرائض اور تراویح کی جماعت کرواتی تھیں۔
ابوبکر بن شیبہ اور حاکم نے سیدنا عطا سے بیان کیا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت کراتی تھیں اور ان کے ساتھ ہی صف میں کھڑی ہوتی تھیں۔
جس سے استدلال کیا جا سکتا ہے کہ عورت عورتوں کی جماعت کرا سکتی ہے، ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب امامۃ النساء میں ام ورقہ بن نوفل کے بارے میں بھی ایک روایت ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عورتوں کی جماعت کروانے کا حکم دیا تھا۔ لیکن وہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے۔ ایک تو اس کی سند میں ایک راویہ عن جدتہ ہے جو "مجہولہ" ہے دوسرا عبدالرحمٰن بن خلاد انصاری راوی قابل حجت نہیں۔
ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن و صحابیات رضی اللہ عنھن کے آثار سے عورتوں کی جماعت صف کے درمیان کھڑے ہو کر کرانے کی گنجائش تو ملتی ہے مگر میرے ناقص علم کی حد تک آثار سے قطع نظر سلف میں بھی کہیں بھی اس بات کی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کسی خاتون نے جمعہ یا عیدین وغیرہ پڑھائی ہوں۔ لہذا ان کے بارے میں سوچنا یا ان کی گنجائش نکالنا تو درست نہیں ہے۔
جمعہ تو عورتوں پر ویسے بھی واجب نہیں۔ اگر واجب ہوتا تو پھر سوچا جا سکتا تھا کہ واجب کی ادائیگی اگر وہ جائے تو اس کی ممکنہ صورتیں کیا ہو سکتی ہیں؟ عورتوں کا اپنا جمعہ یا کچھ اور مگر اس کی بھی ضرورت نہیں۔
بعینہ عیدین بھی واجب نہیں بلکہ اگر کچھ واجب ہے تو فرمایا عورتیں بھی مسلمانوں کی جماعت میں حاضری دیں نہ کہ خود سے عیدین پڑھانا شروع کر دیں۔
جمعہ و عیدین کی جماعتیں دراصل مسلمانوں کی اجتماعیت کا مظہر ہیں ہمارے ہر محلہ گلی میں جمعہ و عیدین کی جو جماعتیں مرد حضرات کی ہوتی ہیں جو کہ کھلے میدانوں میں کم از کم ہونی چاہئیں۔ یہ بھی شریعت کے منشا کے خلاف ہی معلوم ہوتی ہیں، هذا ما عندى والعلم عندالله وعلمة اتم اكمل
مذاہب اربعہ میں سے بھی احناف، شوافع، حنابلہ کے نزدیک عورتوں کی جماعت یعنی صرف فرض نماز کی جماعت بالکراہت جائز ہے۔ جب کہ مالکیہ جواز کے قائل ہیں۔ تو جس جماعت کا یہ مسئلہ ہے تو جمعہ و عیدین تو اس سے بڑھ کر ہیں۔ وہ تو بالاولیٰ جائز نہ ہوں گی
آپ کے مسائل اور ان کا حل
جلد3۔کتاب الصلوٰۃ-صفحہ159
╼ ⃟ ⃟⃟ ╼ دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"کیا عید کی نماز عورت پر واجب ہے؟ اگر واجب ہے تو عید کی نماز گھر میں پڑھے گی یا عید گاہ میں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"عید کی نماز عورت پر واجب نہیں ہے، بلکہ سنت ہے، اور اس کی ادائیگی مسلمانوں کے ساتھ عید گاہ میں ہو گی؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں عید کی نماز مسلمانوں کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (8 /284)
╼ ⃟ ⃟⃟ ╼ مطلق امامت اور جماعت کرانا عورتوں کو منع نہیں عورتوں کے واسطے عورت کی امامت جائز ہے۔ مگر آگے کھڑی نہ ہووے سب کے بیچ کھڑی ہووے عید عورتوں کو علیحدہ پڑھنی خلاف سنت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام و سلف صالحین سے اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ بلکہ یہی تاکید ہے کہ عورتیں بھی عید گاہ میں حاضر ہو جاویں اور مردوں کی نماز میں شامل رہیں۔ حیض والی بھی دعا اور تکبیرات میں شامل رہیں مگر نماز کی جگہ سے جدا رہیں۔ صحیح بخاری کی کتاب العیدین میں دیکھو۔ (حررہ عبد الجبار بن عبد اللہ الغزنوی رحمۃ اللہ علیہ، فتاویٰ غزنویہ ص۴۷)
فتاویٰ علمائے حدیث
کتاب الصلاۃجلد 1 ص 187
╼ ⃟ ⃟⃟ ╼ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا :
"کیا کسی عورت کیلیے عید کی نماز تنہا گھر میں پڑھنا جائز ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"خواتین کیلیے عید کی نماز مردوں کے ساتھ عید گاہ میں پڑھنا شرعی عمل ہے؛ اس کی دلیل ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے، چنانچہ سنت طریقہ یہ ہے کہ خواتین بھی مردوں کے ساتھ عید گاہ جا کر نماز ادا کریں، جبکہ گھر میں عید نماز پڑھنے کے بارے میں مجھے کسی حدیث کا علم نہیں ہے۔" انتہی
ماخوذ از: "فتاوى نور على الدرب" (189 /8) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق۔
╼ ⃟ ⃟⃟ ╼ شیخ ابن عثیمین سے یہ بھی پوچھا گیا کہ:
"ایک عورت استفسار کرتی ہے کہ ہمارے ہاں خواتین کیلیے عید کی نماز پڑھنے کا انتظام نہیں ہے، تو میں اپنے گھر میں خواتین کو جمع کر کے عید کی نماز پڑھاتی ہوں، تو اس کا کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ میرے گھر میں پردے کا معقول انتظام ہے اور مردوں سے دور بھی ہے"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اس کا حکم یہ ہے کہ بدعت ہے؛ کیونکہ عید کی نماز مردوں کے ساتھ باجماعت ہوتی ہے، اور خواتین کو عید گاہ جانے کا حکم دیا گیا ہے اس لیے خواتین مردوں کے ساتھ باجماعت عید کی نماز ادا کریں گی، تاہم عید نماز کیلیے مردوں سے پیچھے الگ سے با پردہ جگہ پر نماز ادا کریں گی۔
جبکہ گھر میں عید نماز ادا کرنا بہت بڑی غلطی ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ سلم یا صحابہ کرام کے زمانے میں ایسا کہیں نہیں پایا گیا کہ کسی گھر میں خواتین عید کی نماز ادا کریں" انتہی
"فتاوى نور على الدرب" (189 /8)
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
╼ ⃟ ⃟⃟ ╼ کیا عورت عید اور جمعہ خطبہ وامامت کےساتھ پڑھا سکتی ہے؟ ╼ ⃟ ⃟⃟ ╼
╼ ⃟ ⃟⃟ ╼ عورت تین کاموں میں مردوں کی بالکل شریک نہیں۔
➊ رسالت و نبوت
➋امامت۔
➊ولایت
اللہ تعالیٰ کی سنت متواترہ کے بعد نبی اکرم اور صحابہ کرام کی سنت سے بھی یہی چیز ثابت ہوتی ہے۔ اللہ نے کسی عورت کو علی الاطلاق نبوت و رسالت عطا نہیں فرمائیں انبیاء نے کسی عورت کو امامت و سیادت نہیں سونپی۔
عورت عورتوں کی جماعت کروا سکتی ہے۔ نماز پڑھائے گی لیکن مردوں کی طرف صف سے باہر نکل کر نہیں کھڑی ہو گی بلکہ درمیان میں کھڑی ہو گی اور احناف تو اسے بھی مکروہ کہتے ہیں اور مردوں کو پڑھانے کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں بھی آتا ہے کہ وہ فرائض اور تراویح کی جماعت کرواتی تھیں۔
ابوبکر بن شیبہ اور حاکم نے سیدنا عطا سے بیان کیا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت کراتی تھیں اور ان کے ساتھ ہی صف میں کھڑی ہوتی تھیں۔
جس سے استدلال کیا جا سکتا ہے کہ عورت عورتوں کی جماعت کرا سکتی ہے، ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب امامۃ النساء میں ام ورقہ بن نوفل کے بارے میں بھی ایک روایت ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عورتوں کی جماعت کروانے کا حکم دیا تھا۔ لیکن وہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے۔ ایک تو اس کی سند میں ایک راویہ عن جدتہ ہے جو "مجہولہ" ہے دوسرا عبدالرحمٰن بن خلاد انصاری راوی قابل حجت نہیں۔
ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن و صحابیات رضی اللہ عنھن کے آثار سے عورتوں کی جماعت صف کے درمیان کھڑے ہو کر کرانے کی گنجائش تو ملتی ہے مگر میرے ناقص علم کی حد تک آثار سے قطع نظر سلف میں بھی کہیں بھی اس بات کی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کسی خاتون نے جمعہ یا عیدین وغیرہ پڑھائی ہوں۔ لہذا ان کے بارے میں سوچنا یا ان کی گنجائش نکالنا تو درست نہیں ہے۔
جمعہ تو عورتوں پر ویسے بھی واجب نہیں۔ اگر واجب ہوتا تو پھر سوچا جا سکتا تھا کہ واجب کی ادائیگی اگر وہ جائے تو اس کی ممکنہ صورتیں کیا ہو سکتی ہیں؟ عورتوں کا اپنا جمعہ یا کچھ اور مگر اس کی بھی ضرورت نہیں۔
بعینہ عیدین بھی واجب نہیں بلکہ اگر کچھ واجب ہے تو فرمایا عورتیں بھی مسلمانوں کی جماعت میں حاضری دیں نہ کہ خود سے عیدین پڑھانا شروع کر دیں۔
جمعہ و عیدین کی جماعتیں دراصل مسلمانوں کی اجتماعیت کا مظہر ہیں ہمارے ہر محلہ گلی میں جمعہ و عیدین کی جو جماعتیں مرد حضرات کی ہوتی ہیں جو کہ کھلے میدانوں میں کم از کم ہونی چاہئیں۔ یہ بھی شریعت کے منشا کے خلاف ہی معلوم ہوتی ہیں، هذا ما عندى والعلم عندالله وعلمة اتم اكمل
مذاہب اربعہ میں سے بھی احناف، شوافع، حنابلہ کے نزدیک عورتوں کی جماعت یعنی صرف فرض نماز کی جماعت بالکراہت جائز ہے۔ جب کہ مالکیہ جواز کے قائل ہیں۔ تو جس جماعت کا یہ مسئلہ ہے تو جمعہ و عیدین تو اس سے بڑھ کر ہیں۔ وہ تو بالاولیٰ جائز نہ ہوں گی
آپ کے مسائل اور ان کا حل
جلد3۔کتاب الصلوٰۃ-صفحہ159
╼ ⃟ ⃟⃟ ╼ دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"کیا عید کی نماز عورت پر واجب ہے؟ اگر واجب ہے تو عید کی نماز گھر میں پڑھے گی یا عید گاہ میں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"عید کی نماز عورت پر واجب نہیں ہے، بلکہ سنت ہے، اور اس کی ادائیگی مسلمانوں کے ساتھ عید گاہ میں ہو گی؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں عید کی نماز مسلمانوں کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (8 /284)
╼ ⃟ ⃟⃟ ╼ مطلق امامت اور جماعت کرانا عورتوں کو منع نہیں عورتوں کے واسطے عورت کی امامت جائز ہے۔ مگر آگے کھڑی نہ ہووے سب کے بیچ کھڑی ہووے عید عورتوں کو علیحدہ پڑھنی خلاف سنت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام و سلف صالحین سے اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ بلکہ یہی تاکید ہے کہ عورتیں بھی عید گاہ میں حاضر ہو جاویں اور مردوں کی نماز میں شامل رہیں۔ حیض والی بھی دعا اور تکبیرات میں شامل رہیں مگر نماز کی جگہ سے جدا رہیں۔ صحیح بخاری کی کتاب العیدین میں دیکھو۔ (حررہ عبد الجبار بن عبد اللہ الغزنوی رحمۃ اللہ علیہ، فتاویٰ غزنویہ ص۴۷)
فتاویٰ علمائے حدیث
کتاب الصلاۃجلد 1 ص 187
╼ ⃟ ⃟⃟ ╼ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا :
"کیا کسی عورت کیلیے عید کی نماز تنہا گھر میں پڑھنا جائز ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"خواتین کیلیے عید کی نماز مردوں کے ساتھ عید گاہ میں پڑھنا شرعی عمل ہے؛ اس کی دلیل ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے، چنانچہ سنت طریقہ یہ ہے کہ خواتین بھی مردوں کے ساتھ عید گاہ جا کر نماز ادا کریں، جبکہ گھر میں عید نماز پڑھنے کے بارے میں مجھے کسی حدیث کا علم نہیں ہے۔" انتہی
ماخوذ از: "فتاوى نور على الدرب" (189 /8) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق۔
╼ ⃟ ⃟⃟ ╼ شیخ ابن عثیمین سے یہ بھی پوچھا گیا کہ:
"ایک عورت استفسار کرتی ہے کہ ہمارے ہاں خواتین کیلیے عید کی نماز پڑھنے کا انتظام نہیں ہے، تو میں اپنے گھر میں خواتین کو جمع کر کے عید کی نماز پڑھاتی ہوں، تو اس کا کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ میرے گھر میں پردے کا معقول انتظام ہے اور مردوں سے دور بھی ہے"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اس کا حکم یہ ہے کہ بدعت ہے؛ کیونکہ عید کی نماز مردوں کے ساتھ باجماعت ہوتی ہے، اور خواتین کو عید گاہ جانے کا حکم دیا گیا ہے اس لیے خواتین مردوں کے ساتھ باجماعت عید کی نماز ادا کریں گی، تاہم عید نماز کیلیے مردوں سے پیچھے الگ سے با پردہ جگہ پر نماز ادا کریں گی۔
جبکہ گھر میں عید نماز ادا کرنا بہت بڑی غلطی ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ سلم یا صحابہ کرام کے زمانے میں ایسا کہیں نہیں پایا گیا کہ کسی گھر میں خواتین عید کی نماز ادا کریں" انتہی
"فتاوى نور على الدرب" (189 /8)
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Post a Comment