السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا كَمَا بَدَأَ، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ ، وفي الباب عن سَعْدٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، وَأَنَسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، وَأَبُو الْأَحْوَصِ اسْمُهُ: عَوْفُ بْنُ مَالِكِ بْنِ نَضْلَةَ الْجُشَمِيُّ تَفَرَّدَ بِهِ حَفْصٌ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا، عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا، لہٰذا ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری و مبارک بادی ہے“ ۱؎۔
سنن ترمذي/كتاب الإيمان عن رسول اللهﷺ/باب مَا جَاءَ أَنَّ الإِسْلاَمَ بَدَأَ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا/رقم الحدیث : 2629
تخریج الحدیث : «سنن ابن ماجہ/الفتن 15 (3988) (تحفة الأشراف: 9510)، و مسند احمد (1/398)، وسنن الدارمی/الرقاق 42 (2797) (صحیح)»
حدیث ’’ اسلام پر ڈٹے رہنے والے غرباء کیلئے خوشخبری‘‘ کی شرح شیخ عبد العزیز بن باز ؒ سے ؛
﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌
ما معنى هذا الحديث: ((بدأ الإسلام غريبا وسيعود غريبا كما بدأ فطوبى للغرباء))؟
الجواب :
معناه أن الإسلام بدأ غريبا كما كان الحال في مكة وفي المدينة في أول الهجرة لا يعرفه ولا يعمل به إلا القليل، ثم انتشر ودخل الناس فيه أفواجا، وظهر على سائر الأديان، وسيعود غريبا في آخر الزمان كما بدأ لا يعرفه حق المعرفة إلا القليل من الناس، ولا يعمل به على الوجه المشروع إلا القليل من الناس وهم الغرباء،
وتمام الحديث قوله صلى الله عليه وسلم: ((فطوبى للغرباء)) رواه مسلم في صحيحه، وفي رواية لغير مسلم: ((قيل يا رسول الله ومن الغرباء؟ فقال: الذين يصلحون إذا فسد الناس)). وفي لفظ آخر: ((هم الذين يصلحون ما أفسد الناس من سنتي)).
نسأل الله أن يجعلنا وسائر إخواننا المسلمين منهم إنه خير مسؤول.
الشيخ عبدالعزيز بن عبد الله بن باز رحمه الله
مجموع فتاوى العلامة عبد العزيز بن باز رحمه الله۔۔ ١٠۴-٢۵
سوال : اس حدیث کا کیا مطلب و معنی ہے، جس میں فرمایا گیا ہے کہ ؟
”اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا اور عنقریب پھر اجنبی ہو جائے گا،جیسے شروع میں تھا، تو ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں(غرباء ) کے لیے خوشخبری ہے“۔
الجواب :::::
اس کا معنی یہ ہے کہ اسلام ابتداء میں مکہ کے اندر اور ہجرت کے ایام میں مدینہ میں اجنبی تھا ،لوگ اسے جانتے نہیں تھے ، اس پرعمل کرنے والے بھی قلیل تعداد میں تھے ،پھر یہ دین اللہ کی مدد سے دنیا میں پھیلا ،اور لوگ فوج در فوج اس میں شامل ہوئے ،اور یہ دین باقی تمام ادیان و مذاہب پر غالب آگیا ،
پھر ایک زمانہ آئے گا کہ ،دنیا میں یہ دین حق لوگ بھول جائیں گے ،اور ابتدا اسلام کی طرح ایک مرتبہ پھر یہ لوگوں کیلئے ۔۔اجنبی ۔۔بن کے رہ جائے گا؛
بہت کم لوگ اس کو جاننے ، ماننے والے رہ جائیں گے ،،،یہی ۔۔غرباء ۔۔ہونگے ؛
انہی لوگوں کو نبی کریم ﷺ نے خوشخبری دی ہے ((فطوبى للغرباء))
صحیح مسلم کے علاوہ مصادر میں موجود اس حدیث مزید یہ بات بھی ہے کہ :
((قيل يا رسول الله ومن الغرباء؟ فقال: الذين يصلحون إذا فسد الناس)).
وفي لفظ آخر: ((هم الذين يصلحون ما أفسد الناس من سنتي)).
یہ ارشاد سن کر لوگوں نے پوچھا :’’ غرباء ‘‘ کون ہونگے ؟
فرمایا :جب دوسرے لوگ دین سے بگڑ جائیں ۔۔یہ غرباء ۔۔اصلاح کریں گے،۔۔یا فرمایا :لوگوں نے میری سنت میں جو بگاڑ پیدا کیا ہوگا ،یہ غرباء اس کی اصلاح کریں گے‘‘
[ مجموع فتاوى العلامة عبد العزيز بن باز رحمه الله/ ١٠۴-٢۵ ]
۔╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼
سوال : السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گزارش ہے کہ ہمیں اس حدیث کا مطلب سمجھا دیں :
(بَدَأَالأِسْلاَمُ غَرِیْباً وَسَیَعُودُ غَرِیباً کَمَا بَدَأً)
’’اسلام شروع ہوا تو اجنبی تھا اور وہ دوبارہ اسی طرح اجنبی ہوجائے گا جس طرح شروع ہوا۔ ‘‘
کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح رسول اللہﷺ کے زمانہ مبارک میں اسے شان‘ غلبہ اور اقتدار حاصل تھا‘ دوبارہ حاصل ہوجائے گا‘ یا کوئی اور مطلب ہے؟ اس حدیث کو بھی پیش نظر رکھیں :
(خَیْرُ الْقُرُونِ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُونَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُونَھُمْ )
’’بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے‘ پھر وہ لوگ جو ان سے ملتے ہیں ‘ پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں ‘
اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس زمانہ میں رسول اللہﷺموجود تھے‘ وہ سب سے افضل ہے اور بعد میں کبھی کوئی ایسا زمانہ نہیں آسکتا جو اس قدر خیروبرکت کاحامل ہو اور پہلی حدیث میں ’’جس طرح شروع ہوا‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام آخری زمانہ میں اسی طرح ہوگا جس طرح رسول اللہﷺ کے زمانے میں تھا اور مسلمانوں میں باہمی محبت اور اتفاق کادور دورہ ہوگا۔ جب کہ آج کل ہم مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ رہے ہیں کہ وہ آپس میں لڑ رہے ہیں اور افتراق وانتشار کا شکار ہیں۔ حکمران اہل دین پر سختی کرتے ہیں ‘ معاشرہ ان کامذاق اڑاتا ہے اور ان سے برسر پیکار ہیں جو مسلمانوں کے لئے مناسب نہیں ‘ لباس کے ایسے فیشن رائج کر رہے ہیں جن کو اختیار کرکے عورتیں عریانی اختیار کررہی ہیں۔ براہ کرم شافی جواب سے نوازیں ‘ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے۔
الجواب :::::
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اسلام شروع میں ایک اجنبی کی حیثیت رکھتا تھا‘ جب رسول اللہﷺ نے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی تو اس کو کوئی شخص قبول کرتا تھا‘ اس وقت یہ اجنبی تھا‘ کیونکہ اس کے کے ماننے والے اجنبی بن کے رہ گئے تھے۔ ان کی تعداد بھی کم تھی اور قوت بھی‘ جب کہ ان مخالفین تعداد میں زیادہ‘ قوت میں برتر اور مسلمانوں پرمسلط تھے‘ حتیٰ کہ بعض حضژات نے اپنے دین کے فتنوں سے بچانے اور خود ظلم واستبداد اور تکلیف وتشدد سے بچنے کیلئے حبشہ کی طرف ہجرت کر لی۔ خود جناب رسول اللہﷺ نے بہت تکلیفیں برداشت کیں اور آخر کار اللہ کے حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت فرماگئے۔ نبیﷺ نے اس امید پر وطن چھوڑا تھا کہ اللہ تعالیٰ دعوت کے کام میں آپﷺ کی تائید کرنے والے اور اسلام کی نصرت کے لئے‘ آپ کا ساتھ دینے والے افراد مہیا فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمنا پوری کی‘ آپ کی مدد فرمائی اور آپ کے لشکر کو قوت بخشی‘ اس طرح اسلام کی سلطنت قائم ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے کفر کی بات پست اور اپنے دین کی بت بلند فرمادی اور اللہ تعالیٰ غالب ہے‘ حکمت والا ہے اور غلبہ وعزت وشوکت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے رسول اور مومن ہی اس کے مستحق ہیں۔ یہ معاملہ ایک عرصہ تک اسی انداز میں قائم رہا حتیٰ کہ مسلمانوں میں اختلاف اور ضعف پیدا ہونے لگا‘ ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ اسلام دوبارہ اجنبی بن کر رہ گیا جس طرح شروع میں اجنبی تھا۔ لیکن اس دفعہ اس کی وجہ ان کی تعداد کی کمی نہیں تھی۔ تعداد کے لحاظ سے وہ بہت زیادہ تھے لیکن اس کی وجہ یہ بنی کہ وہ اپنے دین پر مظبوطی سے قائم نہ رہے‘ اپنے رب کی کتاب سے ان کا تعلق کمزور ہوگیا اور وہ رسول اللہﷺ کے اسوئہ حسنہ پر عمل پیرا نہ رہے۔ الّا ماشاء اللہ۔ وہ اپنی اپنی ذات کی طرف متوجہ ہوگئے اور ان کا مطمح نظر صرف دنیا بن گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی سابقہ امتوں کی طرح دنیا پرستی کی دوڑ میں مشغول ہوگئے‘ ظاہری دولت اور مناصو کی وجہ سے ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن گئے۔ چنانچہ اسلام کے دشمنوں کو دخل اندازی کا موقع مل گیا‘ انہوں نے مسلمانوں کے علاقوں پر قبضہ کیا اور انہیں اپنا غلام بنا لیا۔ انہیں ذلیل کیا اور ہر طرح کی اذیتیں دیں۔ یہ اسلام کی وہ اجنبیت ہے جو دوبارہ پیش آگئی ہے جس طرح ابتدائی دور میں تھی۔
بعض علماء کی رائے ہے جن میں شیخ محمد رشید رضا بھی شامل ہیں کہ اس حدیث میں اسلام کی دوسری اجنبیت کے بعد پر اسلام کی فتوحات کی بشارت موجود ہے کیونکہ اس حدیث میں یہ تشبیہ ہے کہ ’’وہ اجنبی ہوجائے گا جس طرح ابتداء میں تھا۔ ‘‘ یعنی جس طرح پہلی غربت (اجنبیت) کے بعد مسلمانوں کو عزت اور اسلام کو وسعت حاصل ہوئی تھی‘ دوسری غربت کے بعد بھی اسی طرح مسلمانوں کو عزت اور اسلام کو وسعت حاصل ہوگی۔
مزید وضاحت کے لئے امام شاطبی کی کتاب ’’الاعتصام‘‘ میں انہوں نے اس حدیث کی جو تشریح فرمائی ہے وہ ملاحظہ فرمائیے اور اس کے ساتھ محمد رشید رضا نے اس کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے وہ بھی دیکھئے‘ تو دوسری رائے خوب واضح ہو کر سامنے آجائے گی اور وہی زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اس وقف کی تائید ان صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں آخری زمانے میں حضرت مہدی کے ظہور‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے اترنے‘ اسلام کے (پوری دنیا میں ) پھیل جانے اور مسلمانوں کی قوت وشوکت نیز کفر اور کافروں کے مغلوب ہوجانے کا بیان ہے۔
1زیر بحث حدیث کو امام احمد نے مسند میں (۱,۳۹۸)‘ امام مسلم نے صحیح میں (حدیث نمبر: ۱۴۵) ابن ماجہ نے سنن میں (حدیث نمبر: ۳۹۸۸) اور امام دارمی نے سنن میں حدیث نمبر: ۲۷۵۸) روایت کیا ہے۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
اللجنة الدائمة۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز
فتویٰ (۹۴۱۴)
فتاوی بن باز رحمہ اللہ/جلددوم -صفحہ ١٦۵
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ
وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
Post a Comment