Wednesday, March 4, 2020

Pani Par Dam Karna

پانی یا پینے کی چیز پر پھونک مار کر دم کرنا

بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
┄┅════════════════════════┅┄
 تحریر : مسزانصاری
پانی چائے دودھ یا دوسری خوراک میں پھونک مارنا کسی طرح جائز نہیں۔مگر دم کےلئے پھونک مارنے میں اختلاف ہے۔ کچھ علماء عموم کے تحت اسے بھی ناجائز کہتے ہیں۔ جب کہ کچھ علماء کا موقف ہے کہ دم میں سورۃ فاتحہ اور مسنون دعایئں پڑھنے کی وجہ سے اس میں کچھ تاثیر پیدا ہوجاتی ہے۔اس لئے دم کرکے پھونک مارنا جائز ہے۔
احادیث نبویﷺ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کھانے کی چیز میں پھونک نہیں مارنی چاہیے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پینے کی چیزوں پر پھونکنے یا پینے کے دوران برتن کے اندر سانس لینے سے منع فرمایا ہے ۔
⓵✵══┅ نبی ﷺ کا فرمان ذیشان ہے :
إذا شرب أحدكم فلا يتنفس في الإناء
تم۔میں سے جب کوئی پانی پئے تو (پانی پیتے ہوئے) برتن میں سانس نہ لے
(صحیح البخاری :حدیث نمبر_5630)
⓶✵══┅ ایک حدیث میں پھونکنے کی ممانعت ہے،
وہ اس طرح سے ہے۔
عن ابنِ عبَّاسٍ قالَ : نَهى رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ أنْ يُتنفَّسَ في الإناءِ ، أو يُنفَخَ فيه،
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن میں سانس لینے یا اس میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے ۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر_3728)
⓷✵══┅ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پینے کی چیز میں پھونکنے سے منع فرمایا، تو
ایک آدمی نے عرض کی:
اگر برتن میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھوں تو کیا کروں؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اسے بہا دو،
اس نے عرض کی: میں ایک سانس میں سیراب نہیں ہو پاتا ہوں؟
آپ نے فرمایا: ”تب ( سانس لیتے وقت ) پیالہ اپنے منہ سے ہٹا لو٬
(سنن ترمذی،حدیث نمبر_1887)
درج بالا احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ پانی پیتے ہوئے برتن کے اندر سانس لینا، یا گلاس میں تنکا نظر آئے اسے ہٹانے کے لیے یا گرم چائے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پھونک مارنا جائز نہیں،
یہ بھی جان لیا جائے کہ واضح یہ احادیث پانی وغیرہ پیتے ہوئے برتن کے اندر ہی سانس لینے یا پانی،چائے کے اندر پھونک مارنے سے منع کے بارے میں ہیں، نیز پانی پیتے ہوئے برتن کے باہر تین بار سانس لینا سنت سے ثابت ہے،
درج بالا ان احادیث سے لوگوں میں پھونک مار کر دم کرنے سے متعلق مختلف آراء پیدا ہوگئی ہیں
جو لوگ دم وغیرہ کرتے ہیں وہ دم کرنے کے مقصد سے پانی کے برتن پر پھونک مارتے ہیں تو ان کا یہ عمل درست ہے ، اس بات کو جانیے کہ کھانے پینے کی اشیاء پر پھونک مارنا ناجائز ہے لیکن دم والی پھونک اس سے مستثنى ہے ۔
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے گھر پکائے گئے کھانے پر دعائے برکت فرما کر اپنا لعاب مبارک اس میں ڈالا تھا
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الأحزاب)
جب آپ نبی کریمﷺ کا دم کرنا اور پھر لعاب ڈالنا جائز ہے تو پھونک مارنا بطریق اولیٰ درست ہے ۔
اور یہ بھی واضح ہو کہ دم کرنے کے لیے قرآن و حدیث کے مسنون الفاظ کا سہارا لیا جائے ۔ شرک پر مبنی الفاظ سے دم کرنا شرک ہے ۔اسی طرح جب تک خلاف شرع کوئی عمل نہ ہو دم کرنے کے تمام تر طریقے بھی درست ہیں ۔ دم کرکے پانی میں پھونک بھی ماری جاسکتی ہے اور لعاب بھی داخل کیا جاسکتا ہے
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ قَالَ كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ فَقَالَ اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ
صحیح مسلم / کتاب السلام /باب لابأس بالرقى ما لم یکن فیہ شرک/ رقم الحدیث : ۲۲۰۰
سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم جاہلیت کے زمانہ میں دم کیا کرتے تھے؟ ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے دم کو میرے سامنے پیش کرو، دم میں کچھ قباحت نہیں اگر اس میں شرک کا مضمون نہ ہو۔ ۔
⓸✵══┅ایک اور طویل حدیث اس بارے میں وارد ہے
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمَّا حُفِرَ الْخَنْدَقُ رَأَيْتُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمَصًا شَدِيدًا فَانْكَفَأْتُ إِلَى امْرَأَتِي فَقُلْتُ هَلْ عِنْدَكِ شَيْءٌ فَإِنِّي رَأَيْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمَصًا شَدِيدًا فَأَخْرَجَتْ إِلَيَّ جِرَابًا فِيهِ صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ وَلَنَا بُهَيْمَةٌ دَاجِنٌ فَذَبَحْتُهَا وَطَحَنَتْ الشَّعِيرَ فَفَرَغَتْ إِلَى فَرَاغِي وَقَطَّعْتُهَا فِي بُرْمَتِهَا ثُمَّ وَلَّيْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ لَا تَفْضَحْنِي بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَنْ مَعَهُ فَجِئْتُهُ فَسَارَرْتُهُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَبَحْنَا بُهَيْمَةً لَنَا وَطَحَنَّا صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ كَانَ عِنْدَنَا فَتَعَالَ أَنْتَ وَنَفَرٌ مَعَكَ فَصَاحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا أَهْلَ الْخَنْدَقِ إِنَّ جَابِرًا قَدْ صَنَعَ سُورًا فَحَيَّ هَلًا بِهَلّكُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُنْزِلُنَّ بُرْمَتَكُمْ وَلَا تَخْبِزُنَّ عَجِينَكُمْ حَتَّى أَجِيءَ فَجِئْتُ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْدُمُ النَّاسَ حَتَّى جِئْتُ امْرَأَتِي فَقَالَتْ بِكَ وَبِكَ فَقُلْتُ قَدْ فَعَلْتُ الَّذِي قُلْتِ فَأَخْرَجَتْ لَهُ عَجِينًا فَبَصَقَ فِيهِ وَبَارَكَ ثُمَّ عَمَدَ إِلَى بُرْمَتِنَا فَبَصَقَ وَبَارَكَ ثُمَّ قَالَ ادْعُ خَابِزَةً فَلْتَخْبِزْ مَعِي وَاقْدَحِي مِنْ بُرْمَتِكُمْ وَلَا تُنْزِلُوهَا وَهُمْ أَلْفٌ فَأُقْسِمُ بِاللَّهِ لَقَدْ أَكَلُوا حَتَّى تَرَكُوهُ وَانْحَرَفُوا وَإِنَّ بُرْمَتَنَا لَتَغِطُّ كَمَا هِيَ وَإِنَّ عَجِينَنَا لَيُخْبَزُ كَمَا هُوَ
صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق وھی الأحزاب ح ۴۱۰۲
مجھ سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو عاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم کو حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی، کہا ہم کو سعید بن میناء نے خبر دی، کہا میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ جب خندق کھودی جا رہی تھی تو میں نے معلوم کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی بھوک میں مبتلا ہیں۔ میں فوراً اپنی بیوی کے پاس آیا اور کہا کیا تمہارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟ میرا خیال ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی بھوکے ہیں۔ میری بیوی ایک تھیلا نکال کر لائیں جس میں ایک صاع جو تھے۔ گھر میں ہمارا ایک بکری کا بچہ بھی بندھا ہوا تھا۔ میں نے بکری کے بچے کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جو کو چکی میں پیسا۔ جب میں ذبح سے فارغ ہوا تو وہ بھی جو پیس چکی تھیں۔ میں نے گوشت کی بوٹیان کر کے ہانڈی میں رکھ دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میری بیوی نے پہلے ہی تنبیہ کر دی تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے سا منے مجھے شرمندہ نہ کرنا۔ چنانچہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے کان میں یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم نے ایک چھوٹا سا بچہ ذبح کر لیا ہے اور ایک صاع جو پیس لیے ہیں جو ہمارے پاس تھے۔ اس لیے آپ دو ایک صحابہ کو ساتھ لے کر تشریف لے چلیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت بلند آواز سے فر مایا اے اہل خندق! جابر (رضی اللہ عنہ) نے تمہارے لیے کھانا تیار کروایا ہے۔ بس اب سارا کام چھوڑ دو اور جلدی چلے چلو۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک میں آنہ جاؤں ہانڈی چولھے پر سے نہ اتارنا اور تب آٹے کی روٹی پکانی شروع کرنا۔ میں اپنے گھر آیا۔ ادھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ میں اپنی بیوی کے پاس آیا تو وہ مجھے برا بھلا کہنے لگیں۔ میں نے کہا کہ تم نے جو کچھ مجھ سے کہا تھا میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرض کر دیا تھا۔ آخر میری بیوی نے گندھا ہوا آٹا نکالا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنے لعاب دہن کی آمیز ش کر دی اور برکت کی دعا کی۔ ہانڈی میں بھی آپ نے لعاب کی آمیزش کی اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ اب روٹی پکا نے والی کو بلاؤ۔ وہ میرے سامنے روٹی پکائے اور گوشت ہانڈی سے نکالے لیکن چولھے سے ہانڈی نہ اتارنا۔ صحابہ کی تعداد ہزار کے قریب تھی۔ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ اتنے ہی کھانے کو سب نے (شکم سیر ہو کر) کھایا اور کھانا بچ بھی گیا۔ جب تمام لوگ واپس ہو گئے تو ہماری ہانڈی اسی طرح ابل رہی تھی جس طرح شروع میں تھی اور آٹے کی روٹیان برابر پکائی جا رہی تھیں۔
حدیث میں نبی کریمﷺ کا کھانے میں لعابِ دہن ملا دینا پھونک مارنے پر دلالت کرتا ہے ، نیز مسنون ادعیہ اور فاتح پڑھنے سے اس میں کچھ تاثیر پیدا ہوجاتی ہے۔اس لئے دم کرکے پھونک مارنے کو ممنوع نفخ میں شامل نہیں کیا جاسکتا ۔بلکہ اسکے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔
قارئین !! اس موضوع پر دیے گئے اس مواد کے مئوقف کے راجح ہونے میں اہل علم کے اقوال و فتاویٰ ملاحظہ کیے جائیں۔🔽🔽🔽
۔┄┅═════════════════════┅┄
➊┅══✵ وقال الشيخ ابن باز
۔┄┅════════════════════════┅┄
لا حرج في الرقية بالماء ثم يشرب منه المريض أو يغتسل به، كل هذا لا بأس به، الرقى تكون على المريض بالنفث عليه، وتكون في ماء يشربه المريض أو يتروَّش به، كل هذا لا بأس به، فقد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه رقى ثابت بن قيس بن شماس في ماء ثم صبه عليه، فإذا رقى الإنسان أخاه في ماء ثم شرب منه أو صبه عليه يرجى فيه العافية والشفاء، وإذا قرأ على نفسه على العضو المريض في يده أو رجله أو صدره ونفث عليه ودعا له بالشفاء هذا كله حسن.
کہ پانی کے ساتھ دم جسے مریض پی لے یا اس سے غسل کرلے اس میں کوئی حرج نہیں ،
دم براہ راست مریض پر پھونک کر بھی ہوتا ہے ، اور پانی پر دم بھی ہوتا ہے جو مریض کو پلایا جائے اس پر چھڑکا جائے اس میں کوئی مضائقہ نہیں
خود نبی مکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ انہوں نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کیلئے پانی پر دم کیا اور پھر وہ پانی ان پر انڈیل دیا ۔
تو جب کوئی اپنے بھائی کو پانی میں دم کرے ، اور مریض اس کو پیئے ، یا وہ پانی اس پر ڈالا جائے ،تو اس طریقہ میں شفاء کی امید ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جس حدیث میں پانی میں پھونک مارنے یا پینے کے برتن میں سانس لینے منع فرمایا ہے
تو وہ ممانعت صرف عام کھانے پینے کے دوران سمجھ آتی ہے :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا شَرِبَ أَحَدُكُمْ فَلاَ يَتَنَفَّسْ فِي الإِنَاءِ، (صحیح بخاری )
ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، جب تم میں سے کوئی پانی پئے تو برتن میں سانس نہ لے ؛
اور سنن ترمذی میں ہے :
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ يُتَنَفَّسَ فِي الإِنَاءِ أَوْ يُنْفَخَ فِيهِ»: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے برتن میں سانس لینے اور پھونکنے سے منع فرمایا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ‘‘
۔┄┅════════════════════┅┄
➋┅══✵ ابوعبدالرحمٰن محمدرفیق طاہرحفظہ اللہ
۔┄┅════════════════════════┅┄
پانی یا کھانے پینے کی چیز پر دم کرکے اس پر پھونکنا درست ہے ۔
برتن میں سانس لینے یا کھانے پینے کی چیز پر پھونکنا منع ہے مگر دم والی پھونک اس سے مستثنى ہے ۔
عن جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمَّا حُفِرَ الْخَنْدَقُ رَأَيْتُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمَصًا شَدِيدًا فَانْكَفَأْتُ إِلَى امْرَأَتِي فَقُلْتُ هَلْ عِنْدَكِ شَيْءٌ فَإِنِّي رَأَيْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمَصًا شَدِيدًا فَأَخْرَجَتْ إِلَيَّ جِرَابًا فِيهِ صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ وَلَنَا بُهَيْمَةٌ دَاجِنٌ فَذَبَحْتُهَا وَطَحَنَتْ الشَّعِيرَ فَفَرَغَتْ إِلَى فَرَاغِي وَقَطَّعْتُهَا فِي بُرْمَتِهَا ثُمَّ وَلَّيْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ لَا تَفْضَحْنِي بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَنْ مَعَهُ فَجِئْتُهُ فَسَارَرْتُهُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَبَحْنَا بُهَيْمَةً لَنَا وَطَحَنَّا صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ كَانَ عِنْدَنَا فَتَعَالَ أَنْتَ وَنَفَرٌ مَعَكَ فَصَاحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا أَهْلَ الْخَنْدَقِ إِنَّ جَابِرًا قَدْ صَنَعَ سُورًا فَحَيَّ هَلًا بِهَلّكُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُنْزِلُنَّ بُرْمَتَكُمْ وَلَا تَخْبِزُنَّ عَجِينَكُمْ حَتَّى أَجِيءَ فَجِئْتُ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْدُمُ النَّاسَ حَتَّى جِئْتُ امْرَأَتِي فَقَالَتْ بِكَ وَبِكَ فَقُلْتُ قَدْ فَعَلْتُ الَّذِي قُلْتِ فَأَخْرَجَتْ لَهُ عَجِينًا فَبَصَقَ فِيهِ وَبَارَكَ ثُمَّ عَمَدَ إِلَى بُرْمَتِنَا فَبَصَقَ وَبَارَكَ ثُمَّ قَالَ ادْعُ خَابِزَةً فَلْتَخْبِزْ مَعِي وَاقْدَحِي مِنْ بُرْمَتِكُمْ وَلَا تُنْزِلُوهَا وَهُمْ أَلْفٌ فَأُقْسِمُ بِاللَّهِ لَقَدْ أَكَلُوا حَتَّى تَرَكُوهُ وَانْحَرَفُوا وَإِنَّ بُرْمَتَنَا لَتَغِطُّ كَمَا هِيَ وَإِنَّ عَجِينَنَا لَيُخْبَزُ كَمَا هُوَ
صحیح البخاری : 4102​
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے آٹے اور ہنڈیا میں لعاب ڈالا اور برکت کی دعاء کی ۔
جب لعاب ڈالنا درست ہے تو پھونکنا بطریق اولى درست ہے ۔
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں یہ تو معجزہ ہے اور معجزہ سے استدلال درست نہیں ۔
لیکن انکا قول باطل ہے ۔ کیونکہ معجزہ آپکی دعاء سے کھانے کا بڑھ جانا ہے ۔ لعاب ڈالنا یا دعاء کرنا معجزہ نہیں ۔
جیسا کہ بیت المقدس جانا معجزہ نہیں ، اس دور میں ایک ہی رات کے اندر وہاں پہنچنا اور انبیاء کی امامت کرانا اور پھر جیتے جاگتے آسمانوں کی سیر یہ معجزہ ہے ۔
معجزہ کا معنى ہے عاجز کرنے والا ۔ یعنی ایسا کام جسے سر انجام دینے سے انسانی قوى عاجز ہوں ۔ یا جسے سمجھنے سے انسانی عقل قاصر ہو کہ کام کیسے ہو گیا۔
۔┄┅══════════════════┅┄
➌┅══✵فتوی کمیٹی
۔┄┅══════════════════════┅┄
شفا کی غرض سے پانی پر دم کر کےپانی پینے یا پلانے کے حوالے سے کوئی صحیح مرفوع روایت تو موجود نہیں ہے،البتہ اسلاف سے یہ عمل ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایسے کیا کرتے تھے۔امام احمد بن حنبل کے بیٹے صالح فرماتے ہیں۔
بما اعتللت فيأخذ أبي قدحاً فيه ماء، فيقرأ عليه، ويقول لي: اشرب منه، واغسل وجهك ويديك. ونقل عبد الله أنه رأى أباه (يعني أحمد بن حنبل) يعوذ في الماء، ويقرأ عليه ويشربه، ويصب على نفسه منه
(الآداب الشرعیۃ والمنح المرئیۃ:2/456)
جب میں بیمار ہوتا تو میرے باپ پانی کا پیالہ لیتے اور اس پر پڑھتے،اور مجھے کہتے کہ اس پانی میں سے پی لو اور اپنے ہاتھوں اور منہ کو دھو لو۔اس کے بعد فرماتے ہیں کہ میں اپنے باپ کو دیکھا کہ وہ پانی پر دم کرتے اور اس پر پڑھتے ،پھر اسے پی لیتے اور اپنے اوپر بہا لیتے تھے۔
الشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالیٰ ، الشیخ محمد صالح عثیمین رحمہ اللہ تعالیٰ ، شیخ محمد بن ابراہیم اور جمہور اہل علم پانی پر دم کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔
۔┄┅════════════════════┅┄
➍┅══✵ فتاوی الشيخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ تعالی ( 1 / 107 )
۔┄┅════════════════════════┅┄
پانی پر پھونک مارنے کی دو قسمیں ہيں :
⓵┄ پہلی قسم 
اگر تواس پھونک مارنے سے پھونک مارنے والے کا تبرک حاصل کرنا مراد ہو توبلاشک یہ حرام ہے اورشرک کی ایک قسم ہے ، کیونکہ انسان کی تھوک نہ تو شفا کا سبب ہے اور نہ ہی برکت کے لیے ، اورنہ ہی کسی شخص کے آثار سے تبرک حاصل کیا جاسکتا ہے ، صرف اورصرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی تبرک حاصل ہوسکتا ہے ان کے علاوہ کسی اورسے نہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اوران کی موت کے بعد ان کے آثار سے تبرک حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ اگر واقعی وہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہوں تو پھر جیسا کہ ام المومنین ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا کے پاس گنھگھرو جیسا چاندی کا ایک چھوٹا سا برتن تھا جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ بال تھے جن سے مریض شفا حاصل کرتے تھے ، جب کوئي مریض آتا تو ام سلمہ رضي اللہ تعالی ان بالوں پر پانی ڈال کرہلاتیں اوراس مریض کو دیتی تھیں ۔
لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اورکی تھوک ، یا پسینہ یا کپڑے وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا جائز نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا حرام اورشرک کی ایک قسم ہے ، تواس لیے جب پانی میں تبرک کےلیے پھونک ماری جائےاور اوراس سے پھونک مارنے والے کی تھوک کا تبرک حاصل کرنا مقصود ہو تو ایسا کرناحرام اورشرک ہے ۔
اس لیے کہ جس نے بھی کسی چيز کے لیے کوئی غیرشرعی اورغیرحسی سبب ثابت کیا اس نے شرک کی ایک قسم کا ارتکاب کیا کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اللہ تعالی کے ساتھ مسبب قرار دیا ہے ، اورمسبب کے لیے اسباب کا ثبوت توصرف شریعت کی جانب سے ہوتا ہے اوروہیں سے لیا جاسکتا ہے ۔
تواس لیے جس نے بھی ایسا سبب پکڑا جسے اللہ تعالی نے نہ تو حسی طور پر اورنہ ہی شرعی طور پر سبب بنایا ہو اس نے شرک کی ایک قسم کاارتکاب کیا ۔
⓶┄ دوسری قسم 
یہ کہ کوئی انسان قرآن مجید پڑھ کر دم کرے اورپھونک مارے ، مثلا سورۃ الفاتحہ پڑھے ، اورسورۃ الفاتحہ تو ایک دم ہے جس کے ناموں میں رقیہ بھی شامل ہے اوریہ ایسی سورۃ ہے جو مریض کے لیے سب سے بڑا دم ہے ، تواس لیے اگر سورۃ الفاتحہ پڑھ کرپانی میں پھونک ماری جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، بعض سلف صالحین بھی ایسا کیا کرتے تھے ۔
ایسا کرنا مجرب ہے اوراللہ تعالی کے حکم سے نافع بھی ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سوتے وقت یہ عمل ہوتا تھا کہ آپ سورۃ قل ھو اللہ احد ، قل اعوذ برب الفلق ، قل اعوذ برب الناس پڑھ کراپنے دونوں ہاتھوں پر پھونکتےاوراپنے چہرے اورجہاں تک ہاتھ پہنچتا جسم پر اپنے ہاتھ پھیرتے تھے ۔
۔┄┅════════════════════════┅┄
❺ نظر بد کا دم کرنا
۔┄┅════════════════════┅┄
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان نے خبر دی،کہا کہ مجھ سے معبد بن خالد نے بیان کیا،کہا کہ میں نے عبداللہ بن شداد سے سنا، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کے نظر بد لگ جانے پر معوذتین سے دم کرلیا جائے۔
صحیح بخاری / صفحہ ٣٠٨،جلد ہفتم / رقم الحدیث : ۵٧٣٨
معوذتین (سورہ فلق،سورہ الناس اور سورہ الاخلاص ) اور سورہ فاتحہ پڑھنا بہترین مجرب دم ہیں نیز دعاؤں میں اعوذ بکلمات اللہ التامات من شرما خلق مجرب دعا ہے۔
↰حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَيَعْلَى عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ يَقُولُ أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ وَيَقُولُ هَكَذَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يُعَوِّذُ إِسْحَقَ وَإِسْمَعِيلَ عَلَيْهِمْ السَّلَام حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
جامع الترمذي أبواب الطب باب ماجاء في الرقية من العين حـ 2060
سنن أبي داود كتاب السنة باب في القرآن حــ 4737
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے لیے ( ان الفاظ میں ) اللہ تعالیٰ پناہ مانگتےتھے «أعيذكما بكلمات الله التامة من كل شيطان وهامة ومن كل عين لامة» میں تم دونوں کے لیے پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے کلمات کے ذریعہ، ہر شیطان سے، ہر زہریلے کیڑے ( سانپ بچھو وغیرہ ) سے اور ہر نظر بد والی آنکھ سے پھر فرماتے: تمہارے باپ ( ابراہیم ) اسماعیل و اسحاق کے لیے بھی انہی کلمات کے ذریعہ پناہ مانگتے تھے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مخلوق نہیں ہے۔
↰حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَهْبِ بْنِ عَطِيَّةَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ الزُّبَيْدِيُّ ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى فِي بَيْتِهَا جَارِيَةً فِي وَجْهِهَا سَفْعَةٌ ، فَقَالَ : اسْتَرْقُوا لَهَا فَإِنَّ بِهَا النَّظْرَةَ ، تَابَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَالِمٍ ، عَنْ الزُّبَيْدِيِّ ، وَقَالَ عُقَيْلٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
ہم سے محمد بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن وہب بن عطیہ دمشقی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن ولید زبیدی نے بیان کیا، کہا ہم کو زہری نے خبر دی، انہیں عروہ بن زبیر نے ، انہیں زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنھا نے اور ان سے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں ایک لڑکی دیکھی جس کے چہرے پر (نظر بد کی وجہ سے) کالی دھبے پڑ گئے تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر دم کرادو کیونکہ اسے نظر بد لگ گئی ہے۔اور عقیل نے کہا اس نے زہری نے، انہیں عروہ نے خبر دی اور انہوں نے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلا روایت کیا ہے۔محمد بن حرب کے ساتھ اس حدیث کو عبداللہ بن سالم نے بھی زبیدی سے روایت کیا ہے۔
صحیح بخاری / صفحہ ٣٠٨،جلد ہفتم / رقم الحدیث : ۵٧٣٩
اسے ذہلی نے زہریات میں وصل کیا ہے۔معلوم ہوا کہ نظر بد کا لگ جانا حق ہے
┄┅════════════════════════┅┄
وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ․
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ)
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
┄┅════════════════════════┅┄

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search