Saturday, February 8, 2020

کیا قضائے عمری بدعت ہے؟

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
ق̳ض̳ا̳ئ̳ے̳ ع̳م̳ر̳ی̳ ب̳د̳ع̳ت̳ ہ̳ے̳

اسکا غیر مشروع ہونا تو واضح ہے ہی مگر اس کے حق میں دلائل دینے والوں کے دلائل دیکھے جائیں تو یہ بھی معلوم ہوتا کہ یہ ایک قبیح بدعت ہے۔
احناف احادیث سے استدلال کر کے کہتے ہیں کہ بھول جانے والا،سوجانے والا جس طرح نماز کی قضاء کرے گا تو اس چھوڑی ہوئی کی قضاء تو بالاولی کرے گا۔اور حدیث پیش کرتے ہیں کہ اللہ کا حق زیادہ لائق ہے کہ ادا کیا جائے۔
تو کیا ایسا ممکن ہے کہ قضائے عمری اللہ کا حق ہو اوراللہ شریعت میں اس کا حکم نازل کرے نہ ہی رسول اللہﷺ امت کو بتائیں ،اور تو اور صحابہ رضی اللہ عنھم نے بھی نہ بتایا کہ یہ اللہ کا حق ہے؟
یہ کیسے ممکن ہے کہ غلطی اور سرکشی، بھول چوک اور نافرمانی ،سو جانا اور جان بوجھ کر سوئے رہنا، چھوٹ جانا اور نافرمانی کرتے ہوئےچھوڑ دینا برابر ہوجائے؟ نا ٖصرف یہ کہ برابر ہو جائے بلکہ اس کی ادائیگی پر "بالاولی" کا حکم بھی لگ جائے؟ اگر ایسا ہی ہوتا تو حیض ونفاس کی حالت میں چھوٹی ہوئی نمازوں کے لئے "بالاولی" ادا کرنے کا حکم ہو سکتا تھا اگر ہوتا تو۔۔۔ بلکہ یہی حدیث ان کے اپنے موقف کے خلاف پڑتی ہے کہ اگر بھول جانے والے یا سو جانے والے کے لئے نماز کی ادائیگی ہی اس کا کفارہ ہے اور جان بوجھ کر چھوڑی گئی نماز کا بھی ادائیگی ہی کفارہ ہے تو پھر اللہ تعالی نے وقت مقرر ہی کیوں فرمایا نمازوں کے لئے، فجر کے وقت نہیں اٹھا جاتا تو نہ سہی، ظہر کے ساتھ پڑھ لیں، کفارہ تو ادا ہو ہی جائے گا ناں؟ اگر کہیں کہ ہو جائیگا مگر گنہگار بھی ہو گا تو عرض ہے کہ یہ کیسا کفارہ ہے جو گناہ بھی نہ مٹا سکا؟
حالانکہ اللہ رب العزت سورہ الماعون میں ان نمازیوں کے لئے ہلاکت کا حکم سناتے ہیں جو اپنی نمازوں سے غافل رہے۔ جبکہ رسول اللہﷺ کو جب کفار ومشرکین نے نماز سے مشغول رکھا اور نماز چھوٹ گئی تو وہ تمام (رسول اللہﷺ سمیت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم) جو غافل کر دیئے گئے گئے کیا کوئی ہلاکت کا حکم اترا؟ نہیں ناں ؟ بلکہ ان سب نے اس نماز کو بعد میں ادا کیا۔ یہی فرق ہے کہ جان بوجھ کر غافل رہے تو ہلاکت، غافل کر دیئے گئے تو نماز ادا کی جائے گی۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا: کہ بندے اور کفر کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔ (مسلم) اور صحابہ بھی بالاتفاق کفر کا ہی فتوی لگاتے تھے۔
تو کفر کی معافی ہوا کرتی ہے یا قضاء؟ کفر سے لوٹنے والا اگر اپنے اسلام کی تجدید کرتا ہے تو کفر کے گناہ معاف ہوں گے یا نہیں؟ اگر ہو گئے تو کفارہ کیا؟ اور اگر نہیں ہوئے تو شریعت میں روزوں کی طرح اس کی ادائیگی کا کوئی حکم کیوں نہیں ہے؟جس طرح قضاء روزے میت کے سر لازم ہوں تو ولی رکھے گا، نمازیں ہوں تو کون پڑھے گا؟ اس بارے کسی حکم نہ ہونا بھی دلیل ہے کہ یہ نئی چیز ہے۔
فرمان رسولﷺ کہ جس نے نماز عصر چھوڑ دی تو اس کا اہل اور مال سب برباد ہو گیا۔(ابوداؤد)
اگر قضاء کا جواز ہوتا تو بربادی کیسی؟
۔
ابو محمد بن حزم رحمہ اللہ اپنی شہرہ آفاق کتاب المحلی میں فرماتے ہیں کہ:
جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی حتی کہ وقت نکل گیا تو وہ اس کی قضاء پر کبھی قادر نہ ہو سکے گا، پس اسے چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ نیک کام کرےاور نفل نماز پڑھے تاکہ اسکا میزان بھاری ہو سکے، اور چایئے کہ وہ توبہ کرے اور اللہ عزوجل سے استغفار کرے اور ہمارے قول کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے کہ:
{فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ۔ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ} [الماعون:4،5]
ان نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں۔
اور اللہ تعالی کا یہ فرمان:
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا۔ (المریم/59)
‘‘ ان کے بعد ان کے ایسے جانشین پیدا ہوئے جنہوں نے نمازیں ضائع کیں اور خواہشات کی پیروی کی۔ یہ لوگ عنقریب تباہی سے دوچار ہوں گے۔’’
اگر جان بوجھ کر چھوڑنے والا وقت نکل جانے کے بعد بھی نماز پا سکتا تو کیوں ہے اس کے لئے ویل؟ اور نہ ہی اسے تباہی سے دوچار کیا جاتا۔ جیسا کہ جو اس(نماز کو) اس کے آخر وقت میں اسے پا لیتا ہے نہ اس کے لئے ہلاکت ہے نہ تباہی ۔
سیدنا عمر بن الخطاب اور ان کے بیٹے عبداللہ ابن عمر، سعد بن ابی وقاص، سلمان فارسی، ابن مسعود رضی اللہ عنھم، قاسم بن محمد بن ابی بکر، بدیل العقیلی، محمد بن سیرین، مطرف بن عبداللہ ، عمر بن عبد العزیز اور حسن بصری رحمھم اللہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ (کہ تارک نماز توبہ کرے گا، قضاء نہیں دے گا)
پھر (ابن حزم رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ ہم نے کسی بھی صحابی سے اس کے خلاف کوئی قول نہیں سنا۔(المحلی)
الاختیارات کے صفحہ 19 پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسی مسلک کو اختیار کیا ہے اور کہا ہے کہ سلف سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ایک صحیح سند سے قول ہے کہ نماز وقت سے پہلے واجب ہے اور نہ ہی وقت نکل جانے کے بعد۔(مطلب کہ بعد میں نماز ادا ہوتی ہی نہیں)۔ المحلی
داؤد الظاہری، ابن قیم (الصلوۃ لابن قیم) اور علامہ البانی رحمہ اللہ (فی الثمر المستطاب) بھی اسی کی طرف گئے ہیں کہ توبہ ہوگی قضاء نہیں۔
📚 رمضان المبارک کے آخری جمعہ میں قضائے عمری ادا کرنا :
بعض لوگوں میں یہ مغالطہ پایا جاتا ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ کو ایک دن کی پانچ نمازیں مع وتر پڑھ لی جائیں تو ساری عمر کی قضا نمازیں ادا ہو جائیں گی. یہ قطعاً باطل خیال ہے۔ رمضان کی خصوصیت، فضیلت اور اجر و ثواب کی زیادتی اپنی جگہ لیکن ایک دن کی قضا نمازیں پڑھنے سے ایک دن کی ہی نمازیں ادا ہوں گی، ساری عمر کی نہیں۔
فوت شدہ نمازوں کے کفارہ کے طور پر یہ جو طریقہ ( قضائے عمری) ایجاد کرلیا گیا ہے یہ بد ترین بدعت ہے اس بارے میں جو روایت ہے وہ موضوع ( گھڑی ہوئی) ہے یہ عمل سخت ممنوع ہے ، ایسی نیت و اعتقاد باطل و مردود، اس جہالت قبیحہ اور واضح گمراہی کے بطلان پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے، حضور پر نور سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا رشاد گرامی ہے: جو شخص نماز بھول گیا تو جب اسے یاد آئے اسے ادا کرلے، اس کا کفارہ سوائے اس کی ادائیگی کے کچھ نہیں اسے امام احمد ، بخاری ، مسلم ( مذکورہ الفاظ بھی اس کے ہیں ) ترمذی ، نسائی اور دیگر محدثین نے حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔
حدثنا محمد بن کثير أخبرنا همام عن قتادة عن أنس بن مالک أن النبي صلی الله عليه وسلم قال من نسي صلاة فليصلها إذا ذکرها لا کفارة لها إلا ذلک
سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 439
محمد بن کثیر، ہمام، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کوئی نماز (پڑھنا) بھول جائے تو جب یاد آئے اس کو پڑھ لے اور اس پر سوائے قضا کے کوئی کفارہ نہیں ہے۔
اسی صحیح مسلم میں ہے ۔
حدثنا هداب بن خالد حدثنا همام حدثنا قتادة عن أنس بن مالک أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال من نسي صلاة فليصلها إذا ذکرها لا کفارة لها إلا ذلک قال قتادة وأقم الصلاة لذکري
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1560
ہداب بن خالد، ہمام، قتادہ، انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی نماز پڑھنی بھول جائے جب اسے یاد آجائے تو اسے چاہئے کہ وہ اس نماز کو پڑھ لے اس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (وَأَقِمْ الصَّلَاةَ لِذِکْرِي) پڑھی۔
حدیث ''من قضی صلوٰۃ من الفرائض فی اخر جمعۃ من رمضان کان ذلک جابرا لکل صلوٰۃ فائتۃ فی عمرہ الی سبعین سنۃ'' باطل قطعا لانہ مناقض للاجماع علی ان شیأ من العبادات لاتقوم مقام فائتۃ سنوات
الاسرار الموضوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ حدیث ۹۵۳ مطبوعہ دارالکتب العربیۃ بیروت ص ۲۴۲)
علامہ قاری علیہ رحمۃ الباری موضوعات کبیر میں کہتے ہیں:
حدیث ''ارشادِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جس شخص کی نمازیں قضا ہوئی ہوں اور تعداد معلوم نا ہو تو وہ رمضان کے آخری جمعہ کے دن 4 رکعت نفل ایک سلام کے ساتھ پڑھے۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی 7 بار، سورہ کوثر 15 بار پڑھے۔
اگر 700 سال کی نمازیں بھی قضا ہوئی ہوں تو اس کے کفارے کے لیے کافی ہے۔
یقینی طور پر باطل ہے کیونکہ اس اجماع کے مخالف ہے کہ عبادات میں سے کوئی شئے سابقہ سالوں کی فوت شدہ عبادات کے قائم مقام نہیں ہوسکتی
اس کا جواب شیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ ۔۔۔نے حسب ذیل دیا ؛
ما صحة حديث (من فاتته صلاةٌ في عمره ولم يحصها فليقم في آخر جمعة من رمضان...)؟
اس حدیث کی کیا حیثیت جس میں آیا ہے: جس کی زندگی میں بے شمار نمازیں فوت ہو گئی ہوں۔۔انکی تعداد کا علم بھی نہ ہو سکے ،تو وہ رمضان کے آخری جمعہ کو ۔۔۔۔۔
سوال :
لقد وجدت في كتاب المجموعة المباركة -تأليف عبده محمد- باباً في فائدة تقول: عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: (من فاتته صلاةٌ في عمره ولم يحصها فليقم في آخر جمعة من رمضان فيصلي أربع ركعات بتشهد واحد، يقرأ في الركعة الواحدة الفاتحة وسورة القدر عدد خمسة عشر مرة، وكذلك سورة الكوثر مثلها، ويقول في النية: نويت أن أصلي أربع ركعات كفارة لما فاتني من الصلاة) فهل هذا صحيح؟
سائل کہتا ہے کہ : 👇
میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ جس شخص کی نمازیں قضا ہوئی ہوں اور تعداد معلوم نہ ہو تو وہ رمضان کے آخری جمعہ کے دن 4 رکعت نفل ایک سلام کے ساتھ پڑھے۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورۃ القدر پندرہ 15 بار، سورہ کوثر 15 بار پڑھے۔اور نیت یوں کرے :میں اپنی فوت شدہ نمازوں کے کفارہ میں چار رکعت نماز کی نیت کرتا ہوں ؛
کیا یہ (قضاء عمری کی نماز ) درست ہے۔
جواب : 👇
لا أصل له بل هو موضوع مكذوب فهذا ليس له أصل بل هو من الكذب والباطل، وإذا فات الإنسان صلاة ولم يذكرها يتحرى، يتحراها ظهراً أو عصراً أو عشاءً أو مغرباً، يتحراها ويعمل بظنه، ويصلي ما غلب على ظنه والحمد لله في أي وقت، نعم. بارك الله فيكم.
شیخ فرماتے ہیں :
اس نماز کی کوئی اصل نہیں (یعنی یہ بے بنیاد ،خود ساختہ ہے)،یہ نرا جھوٹ،اور باطل ہے،
اگر کسی کی نماز فوت ہوگئی ہو ،اور اسے یاد نہ آئے کہ کون سی نماز رہ گئی تھی ۔تو اسے چاہیئے کہ جو نماز اس کے گمان غالب
میں آئے،وہ پڑھ لے ،کسی بھی وقت ،،
امام ابن حجر کی تحفہ شرح منہاج للامام النووی میں پھر علامہ زرقانی شرح مواہب امام قسطلانی رحمہم اﷲ تعالٰی میں فرماتے ہیں:
قبح من ذلک مااعتید فی بعض البلاد من صلوٰۃ الخمس فی ھذہ الجمعۃ عقب صلٰوتھا زاعمین انھا تکفر صلٰوۃ العام اوالعمر المتروکۃ و ذلک حرام لوجوہ لا تخفی
اس سے بھی بدتر وہ طریقہ ہے جو بعض شہروں میں ایجاد کر لیا گیا ہے کہ جمعہ کے بعد پانچ نمازیں اس گمان سے ادا کرلی جائیں کہ اس سے سال یا سابقہ تمام عمر کی نمازوں کا کفارہ ہے اور یہ عمل ایسی وجوہ کی بنا پر حرام ہے جو نہایت ہی واضح ہیں۔
شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ واما حفیظۃ رمضان دارالمعرفۃ بیروت ۷ /۱۱۰)
قضائے عمری کو شب ِقدر یا آخری جمعہ رمضان میں جماعت سے پڑھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ عمر بھر کی قضائیں اس ایک نماز سے اداہوگئیں۔ یہ محض باطل ہے۔
بہار شریعت 'حصہ4
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search