حقوق العباد کیسے معاف ہونگے
بِ̳̳سْ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳مِ̳̳ ا̳ل̳ل̳ہِ̳̳ ا̳ل̳رَّ̳̳̳حْ̳̳مٰ̳̳نِ̳̳ ا̳ل̳رَّ̳̳̳حِ̳̳یْ̳̳مِ̳̳
ا̳ل̳سَّ̳̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ل̳اَ̳̳م̳ عَ̳̳لَ̳̳ي̳ـ̳ـْ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳كُ̳̳م̳ وَ̳̳رَ̳̳حْ̳̳مَ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ةُ̳̳ا̳ل̳ل̳هِ̳̳ وَ̳̳بَ̳̳رَ̳̳ك̳ـَ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ا̳تُ̳̳ه̳
ا̳ل̳سَّ̳̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ل̳اَ̳̳م̳ عَ̳̳لَ̳̳ي̳ـ̳ـْ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳كُ̳̳م̳ وَ̳̳رَ̳̳حْ̳̳مَ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ةُ̳̳ا̳ل̳ل̳هِ̳̳ وَ̳̳بَ̳̳رَ̳̳ك̳ـَ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ا̳تُ̳̳ه̳
✍ازقلم ⇇ مسزانصاری
عمومًا لوگ رسول الله سے ایک حدیث منسوب کرتے ہیں کہ " اگر بندے نے اپنے حقوق معاف نا کئے تو الله بھی معاف نہیں کرے گا "
خبردار !! ایسی یا اس جیسی کوئی حدیث اسلام کے مستند ذخیرہ احادیث میں موجود نہیں ہے ۔
تاہم اس سے متعلق احادیث واضح ہیں کہ اللہ تعالی قیامت والے دن حقوق العباد کا ایک دوسرے کی نیکیوں اور گناہوں کےتبادلے سے بدلہ دلوائے گا ۔
احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی حقوق العباد میں کوتاہی کرنے والے شخص کو بخش دے گا اورجس کا حق مارا گیا ہوگا ، اللہ اسے اپنی طرف سے راضی کردے گا ۔
دلا ئل کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ حقوق الناس میں بندوں سے معافی ما نگے بغیر اگراللہ تعالیٰ سے توبہ کرے توبہ قبول ہو سکتی ہے کیونکہ (إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ)والی آیت عمو میت پر دلا لت کر تی ہے
احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی حقوق العباد میں کوتاہی کرنے والے شخص کو بخش دے گا اورجس کا حق مارا گیا ہوگا ، اللہ اسے اپنی طرف سے راضی کردے گا ۔
دلا ئل کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ حقوق الناس میں بندوں سے معافی ما نگے بغیر اگراللہ تعالیٰ سے توبہ کرے توبہ قبول ہو سکتی ہے کیونکہ (إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ)والی آیت عمو میت پر دلا لت کر تی ہے
حقوق اللہ کی کوتاہی کا تدارک توبہ سے ممکن ہے ، تاہم حقوق النا س کا معاملہ ہو تو مزید ایک اور شرط بڑھا دی ہے اور وہ ہے کہ اس مظلوم بھائی کے حق کو ادا کرے یا اس سے معانی مانگے تو اس سے پتہ یہ چلا کہ جب تک وہ مظلوم اسے معاف نہیں کرے گا تب تک اس کا یہ گناہ اگر اللہ تعا لیٰ سے تو بہ کرے تب بھی معاف نہیں ہو سکتا
حقوق العباد عام ہیں۔ خواہ ناحق خون کی قسم سے ہوں یا خیانت کی قسم سے ہوں یا ناحق مال کھانے کی قسم سے ہوں۔ ترغیب ترہیب میں ہے کہ عبداللہ بن مبارکؒ امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد سفیان ثوریؒ سے وہ زبیر بن عدی سے وہ انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ صرف ہمارے لیے ہے، فرمایا: تمہارے لیے بھی ہے اور تمہارے بعد جو قیامت تک آئے اس کے لیے بھی ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان حقوق العباد سے وہ مراد ہیں جن کی ادائیگی وسعت انسانی سے باہر ہوگی اگر ادا کرنے کی جلدی یا دیر سے تا عمر طاقت رکھتا ہو تو اس صورت میں معافی نہیں ہوگی
حقوق العباد اور حقوق الله کی معافی کا تعلق الله کی حکمت و قدرت سے ہے - الله کا فرمان کہ : " شرک کے علاوہ تمام گناہ معاف کر دے گا"
إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ افْتَرَى إِثْماً عَظِيماً ۔ (النساء 4:48)
بے شک اللہ تعالیٰ اس چیز کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے، اس کے سوا جو کچھ ہے، جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔
إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ افْتَرَى إِثْماً عَظِيماً ۔ (النساء 4:48)
بے شک اللہ تعالیٰ اس چیز کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے، اس کے سوا جو کچھ ہے، جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔
لہٰذا دلائل کی روشنی میں معلوم ہو تا ہے کہ حقوق الناس میں بندوں سے معافی ما نگے بغیر اگراللہ تعالیٰ سے توبہ کرے توبہ قبول ہو سکتی ہے کیونکہ (إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ)والی آیت عمو میت پر دلا لت کر تی ہے
اس سلسلے میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے جسکی تحقیق پیش کرنا ضروری ہے↡↡↡↡↡↡
حدثنا أبو منصور محمد بن القاسم العتكي ، ثنا أبو عبد الله محمد بن أحمد بن أنس القرشي ، ثنا عبد الله بن بكر السهمي ، أنبأ عباد بن شيبة الحبطي ، عن سعيد بن أنس ، عن أنس بن مالك رضي الله عنه ، قال: بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس إذ رأيناه ضحك حتى بدت ثناياه ، فقال له عمر: ما أضحكك يا رسول الله بأبي أنت وأمي ؟ قال: " رجلان من أمتي جثيا بين يدي رب العزة ، فقال أحدهما: يا رب خذ لي مظلمتي من أخي ، فقال الله تبارك وتعالى للطالب: فكيف تصنع بأخيك ولم يبق من حسناته شيء ؟ قال: يا رب فليحمل من أوزاري " قال: وفاضت عينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بالبكاء ، ثم قال: " إن ذاك اليوم عظيم يحتاج الناس أن يحمل عنهم من أوزارهم ، فقال الله تعالى للطالب: " ارفع بصرك فانظر في الجنان فرفع رأسه ، فقال: يا رب أرى مدائن [ص:40] من ذهب وقصورا من ذهب مكللة باللؤلؤ لأي نبي هذا أو لأي صديق هذا أو لأي شهيد هذا ؟ قال: هذا لمن أعطى الثمن ، قال: يا رب ومن يملك ذلك ؟ قال: أنت تملكه ، قال: بماذا ؟ قال: بعفوك عن أخيك ، قال: يا رب فإني قد عفوت عنه ، قال الله عز وجل: فخذ بيد أخيك فأدخله الجنة " فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك: " اتقوا الله وأصلحوا ذات بينكم فإن الله تعالى يصلح بين المسلمين "
(مستدرک حاکم ، حدیث نمبر :8781 )
(مستدرک حاکم ، حدیث نمبر :8781 )
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم آقائے دوجہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ اچانک ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے ہیں حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے والے دانت نمودار ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حضرت عمررضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ قربان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس بات نے ہنسایا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا! میری امت کے دو آدمی رب العزت کی بارگاہ میں گھٹنوں کے بل پیش ہوتے ہوئے دکھائے گئے ہیں ان میں سے ایک نے کہا اے رب! میرے اس ظالم بھائی سے میرے ظلم کا حساب لے کر دیں اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا تو اپنے ظالم بھائی سے کیا چاہتا ہے حالانکہ اس کے پاس نیکیوں میں سے کچھ نہیں بچا(یعنی اس کے پاس تو صرف گناہ ہی ہیں ) ؟ تو اس نے عرض کیا یارب! میرے گناہ ہی اس پر لاد دیں یہ ذکر کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے پھر فرمایا یہ دن بہت بڑا ہوگا لوگ اس کے محتاج ہوں گے کہ ان کے گناہوں کے بوجھ اٹھا دئیے جائیں چنانچہ اللہ تعالیٰ اس مطالبہ کرنے والے کو فرمائیں گے اپنی نظر اٹھا اور دیکھ وہ نظر اٹھا کر دیکھے گا اور کہے گااے رب! میں سونے کے شہر اور سونے کے محلات دیکھ رہا ہوں لئو لئو کے تاج سجائے ہوئے ہیں یہ کس نبی کیلئے ہیں یا کس صدیق کیلئے ہیں یا یہ کس شہید کیلئے ہیں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جو اس کی قیمت دے گا وہ اس کیلئے ہیں۔وہ عرض کریگا یارب ان کا کون مالک بن سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو اس کا مالک بنے گا وہ عرض کریگا کس عمل کی وجہ سے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اپنے اس بھائی کو معاف کردینے سے۔وہ عرض کرےگا یارب! میں نے اس کو معاف کیا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ چلو اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑو اور اس کو بھی جنت میں لے جاؤ۔یہ حدیث بیان فرما کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسی لیے اللہ سے تقویٰ اختیار کرو اور آپس میں صلح کے ساتھ رہو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے درمیان صلح چاہتے ہیں۔(حاکم وقال صحیح الاسناد)
تحقیق از : الشیخ محمد اسحاق سلفی حفظہ اللہ ↡↡↡↡↡↡
قال المنذري: رواه الحاكم والبيهقي في البعث كلاهما عن عباد بن شيبة الحبطي عن سعيد بن أنس عنه. وقال الحاكم: صحيح الإسناد! كذا قال اهـ.
فاستنكر المنذري تصحيح الحاكم له، وكذا تعقبه الذهبي فقال: عباد ضعيف، وشيخه لا يعرف اهـ.
وقال ابن كثير: إسناد غريب، وسياق غريب، ومعنى حسن عجيب اهـ.
وقال البوصيري في إتحاف الخيرة: رواه أبو يعلى الموصلي بسند ضعيف؛ لضعف سعيد بن أنس وعباد بن شيبة اهـ. والحديث ضعفه الألباني جدا.
فاستنكر المنذري تصحيح الحاكم له، وكذا تعقبه الذهبي فقال: عباد ضعيف، وشيخه لا يعرف اهـ.
وقال ابن كثير: إسناد غريب، وسياق غريب، ومعنى حسن عجيب اهـ.
وقال البوصيري في إتحاف الخيرة: رواه أبو يعلى الموصلي بسند ضعيف؛ لضعف سعيد بن أنس وعباد بن شيبة اهـ. والحديث ضعفه الألباني جدا.
یعنی : امام منذری فرماتے ہیں :اس روایت کو حاکم اور بیہقی نے روایت کیا اور دونوں کی سند میں ۔۔ عباد بن شيبة ۔۔ہے ،اس کے باوجود حاکم اس کو صحیح کہا ہے !
گویا اس طرح علامہ منذری نے حاکم کی تصحیح کو غلط قرار دیا ۔اور علامہ الذہبی نے بھی اس کا تعاقب کیا ہے اور کہا ہے کہ : عباد بن شيبة ۔ضعیف ہے، اور اس کا شیخ مجہول ہے ۔
اور علامہ البوصیری ؒ نے اتحاف الخیرہ میں اور علامہ الالبانی نے ضعیف الترغیب میں اسے بہت ضعیف کہا ہے
گویا اس طرح علامہ منذری نے حاکم کی تصحیح کو غلط قرار دیا ۔اور علامہ الذہبی نے بھی اس کا تعاقب کیا ہے اور کہا ہے کہ : عباد بن شيبة ۔ضعیف ہے، اور اس کا شیخ مجہول ہے ۔
اور علامہ البوصیری ؒ نے اتحاف الخیرہ میں اور علامہ الالبانی نے ضعیف الترغیب میں اسے بہت ضعیف کہا ہے
فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ میں جلد نمبر1 میں صفحہ نمبر788 پر مذکور ہے :
بلاشبہ عام قاعدہ ضابطہ یہی ہے کہ جب تک صاحب حق سے تصفیہ نہ ہو اس وقت تک انسان حقوق العباد سے بری الذمہ قرار نہیں پا تا لیکن یہ با ت کہیں نہیں کہ اللہ تعا لیٰ کی خاص نظر شفقت سے بھی ایسے شخص کو معافی نہیں ملتی بلکہ نصوص شریعت سے یہ با ت عیا ں ہے کہ اللہ تعا لیٰ کی صفت رحمانیت و رحیمیت کا جب تقاضا ہو تو بڑے بڑے گنہگا روں اور سیاہ کا روں کے لیے بھی عفود کرم کا دروازہ کھل جا تا ہے سب کو پکڑ کر جنت میں داخل کر دے یا جہنم میں ڈال دے کو ئی اس سے پو چھنے والا نہیں ۔
"مشکوۃ المصابیح "کے با ب "الایمان فی القدر "میں ایک روایت کے الفا ظ ہیں :
بلاشبہ عام قاعدہ ضابطہ یہی ہے کہ جب تک صاحب حق سے تصفیہ نہ ہو اس وقت تک انسان حقوق العباد سے بری الذمہ قرار نہیں پا تا لیکن یہ با ت کہیں نہیں کہ اللہ تعا لیٰ کی خاص نظر شفقت سے بھی ایسے شخص کو معافی نہیں ملتی بلکہ نصوص شریعت سے یہ با ت عیا ں ہے کہ اللہ تعا لیٰ کی صفت رحمانیت و رحیمیت کا جب تقاضا ہو تو بڑے بڑے گنہگا روں اور سیاہ کا روں کے لیے بھی عفود کرم کا دروازہ کھل جا تا ہے سب کو پکڑ کر جنت میں داخل کر دے یا جہنم میں ڈال دے کو ئی اس سے پو چھنے والا نہیں ۔
"مشکوۃ المصابیح "کے با ب "الایمان فی القدر "میں ایک روایت کے الفا ظ ہیں :
«لو ان الله عزوجل عذب اهل سماواته واهل ارضه عذبهم وهو غير ظالم لهم ولو رحمهم كانت رحمته خيرا لهم من اعمالهم» صححه الباني وحمزة صحيح ابي دائود كتاب السنة باب في القدر (٤٦٩٩) ابن ماجه (٧٧) احمد(٥ /١٨٣-١٩٩)
"اگر اللہ عزوجل ارض و سماء کی تما م مخلو ق کو پکڑ کر عذاب میں مبتلا کر دے تو پھر بھی وہ بے انصاف نہیں ٹھہرتا اور اگر تمام کو اپنی رحمت کی آغوش میں لے لے تو ان کے اعمال سے اس کی رحمت کہیں بہتر ہے ۔"
پھر قرآن مجید میں بھی بڑے واضح الفاظ میں مو جو د ہے ۔
پھر قرآن مجید میں بھی بڑے واضح الفاظ میں مو جو د ہے ۔
﴿لا يُسـَٔلُ عَمّا يَفعَلُ وَهُم يُسـَٔلونَ ﴿٢٣﴾... سورة الأنبياء
"وہ اپنے کا مو ں کے لیے (کسی کے آگے )جوابدہ نہیں اور سب (اس کے آگے )جوابدہ ہیں ۔
امام طحا وی رحمۃ اللہ علیہ عقیدہ طحا ویہ "میں فرماتے ہیں ۔
«فمن سال لم فعل ؟ فقد رد حكم الكتاب ومن رد حكم الكتاب كان من الكافرين»
یعنی "جس نے بطور تعنت کہا اللہ نے فلا ں کا م کس لیے کیا ہے ؟اس نے کتا ب کے حکم کو رد کیا اور جس نے کتا ب کا حکم رد کیا اس کا شمار کا فروں سے ہے کیو نکہ بندے کا کا م صرف انقیاد و تسلیم ہے ۔" اور انجیل میں ہے ۔
«يا بني اسرائيل لا تقولوا لم امر ربنا ولكن قولوا بم امر ربنا؟»
"اے بنی اسرا ئیل مت کہو ہما رے پروردگا ر نے ہمیں کس لیے حکم دیا ہے لیکن یہ کہو کہ ہما رے پر وردگا ر نے ہمیں کس شئی کا حکم دیا ہے ؟
(بحوالہ شرح العقیدۃ الطحاریۃص:239)
مذکورہ صورت حا ل کے پیش نظر کر کے ان کی بد اعما لیوں اور سیا ہ کا ر یوں پر رحمت کا قلم چلا کر تو بہ و استغفا ر کے آنسؤوں سے انہیں دھو ڈالے اس لیے کہ وہ صاحب اختیا ر ہے ۔
امام طحا وی رحمۃ اللہ علیہ عقیدہ طحا ویہ "میں فرماتے ہیں ۔
«فمن سال لم فعل ؟ فقد رد حكم الكتاب ومن رد حكم الكتاب كان من الكافرين»
یعنی "جس نے بطور تعنت کہا اللہ نے فلا ں کا م کس لیے کیا ہے ؟اس نے کتا ب کے حکم کو رد کیا اور جس نے کتا ب کا حکم رد کیا اس کا شمار کا فروں سے ہے کیو نکہ بندے کا کا م صرف انقیاد و تسلیم ہے ۔" اور انجیل میں ہے ۔
«يا بني اسرائيل لا تقولوا لم امر ربنا ولكن قولوا بم امر ربنا؟»
"اے بنی اسرا ئیل مت کہو ہما رے پروردگا ر نے ہمیں کس لیے حکم دیا ہے لیکن یہ کہو کہ ہما رے پر وردگا ر نے ہمیں کس شئی کا حکم دیا ہے ؟
(بحوالہ شرح العقیدۃ الطحاریۃص:239)
مذکورہ صورت حا ل کے پیش نظر کر کے ان کی بد اعما لیوں اور سیا ہ کا ر یوں پر رحمت کا قلم چلا کر تو بہ و استغفا ر کے آنسؤوں سے انہیں دھو ڈالے اس لیے کہ وہ صاحب اختیا ر ہے ۔
﴿إِنَّ اللَّهَ يَغفِرُ الذُّنوبَ جَميعًا...٥٣﴾... سورة الزمر
اور صاحب حق کی جھولی اپنی رحمت خاص سے بھر کر اسے را ضی کر دے
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں ۔
«في الحديث مشروعية التوبة من جميع الكبائر حتيٰ من قتل الانفس ويحمل علي ان الله تعاليٰ اذا قبل توبة القاتل تكفل برضا خصمه قال الطيبي :اذا رضي عن عبده ارضيٰ خصومه ورد مظالمه» (مرعاة المفاتيح :٣ /٤٦٩)
"اس حدیث میں تمام کبیرہ گناہوں سے حتی کہ کئی اشخاص کے قتل سے بھی تو بہ کی مشروعیت ہے اور یہ اس پر محمول ہے کہ جب اللہ تعا لیٰ قا تل کی تو بہ قبو ل فرما لیتا ہے تو مقتول کی رضا کا وہ خود ضا من بن جا تا ہے ۔"
اما م طیبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ۔جب اللہ اپنے کسی بندے پر راضی ہو جا تا ہے تو اس کے مد مقا بل کو بھی راضی کر کے اس کا حق اپنے پاس سے اسے عنا یت فرما دے گا ۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں ۔
«في الحديث مشروعية التوبة من جميع الكبائر حتيٰ من قتل الانفس ويحمل علي ان الله تعاليٰ اذا قبل توبة القاتل تكفل برضا خصمه قال الطيبي :اذا رضي عن عبده ارضيٰ خصومه ورد مظالمه» (مرعاة المفاتيح :٣ /٤٦٩)
"اس حدیث میں تمام کبیرہ گناہوں سے حتی کہ کئی اشخاص کے قتل سے بھی تو بہ کی مشروعیت ہے اور یہ اس پر محمول ہے کہ جب اللہ تعا لیٰ قا تل کی تو بہ قبو ل فرما لیتا ہے تو مقتول کی رضا کا وہ خود ضا من بن جا تا ہے ۔"
اما م طیبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ۔جب اللہ اپنے کسی بندے پر راضی ہو جا تا ہے تو اس کے مد مقا بل کو بھی راضی کر کے اس کا حق اپنے پاس سے اسے عنا یت فرما دے گا ۔
✍ خلاصہ یہی ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا معاملہ بھی انتہائی حساس ہے ، حقوق اللہ میں کوتاہی اگر اللہ چاہیں گے تو معاف کردے گا ، لیکن حقوق العباد میں عمومی حکم یہی ہے کہ اللہ تعالی بدلہ دلوائے گا ، جب میدان مقتل میں شہادت پانے والے کو قرض جیسے حقوق العباد معاف نہیں ، توپھر ایک عام آدمی کا کیا حال ہوگا ؟
البتہ اللہ اگر چاہے ، تو اپنے بعض نیک بندوں کی دوسرے بندوں کے حق میں کمیاں کوتاہیاں معاف فرما دے گا ، اور حق والوں کو بھی اپنے فضل و کرام سے راضی کردے گا ۔
البتہ اللہ اگر چاہے ، تو اپنے بعض نیک بندوں کی دوسرے بندوں کے حق میں کمیاں کوتاہیاں معاف فرما دے گا ، اور حق والوں کو بھی اپنے فضل و کرام سے راضی کردے گا ۔
الشیخ محمدصالح المنجد حفظہ اللہ کا درج ذیل مواد بھی ملاحظہ کیا جائے ↡↡↡↡↡↡
س̳ل̳م̳ك̳ ا̳ل̳ل̳ه̳ م̳ن̳ ك̳ل̳ ش̳ر̳ ج̳ز̳ا̳ك̳م̳ ا̳ل̳ل̳ه̳ ع̳ن̳ي̳ خ̳ي̳ر̳ ا̳ل̳ج̳ز̳ا̳ء̳ و̳ب̳ا̳ر̳ك̳ ا̳ل̳ل̳ه̳ ف̳ي̳ك̳م̳ و̳ن̳ف̳ع̳ ب̳ك̳م̳
وَ̳̳ا̳ل̳سَّ̳̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ل̳اَ̳̳م̳ عَ̳̳لَ̳̳ي̳ـ̳ـْ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳كُ̳̳م̳ وَ̳̳رَ̳̳حْ̳̳مَ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ةُ̳̳ا̳ل̳ل̳هِ̳̳ وَ̳̳بَ̳̳رَ̳̳ك̳ـَ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ا̳تُ̳̳ه̳
وَ̳̳ا̳ل̳سَّ̳̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ل̳اَ̳̳م̳ عَ̳̳لَ̳̳ي̳ـ̳ـْ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳كُ̳̳م̳ وَ̳̳رَ̳̳حْ̳̳مَ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ةُ̳̳ا̳ل̳ل̳هِ̳̳ وَ̳̳بَ̳̳رَ̳̳ك̳ـَ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ا̳تُ̳̳ه̳
وَ̳̳بِ̳̳ا̳ل̳لّٰ̳̳̳ہِ̳̳ ا̳ل̳تَّ̳̳̳وْ̳̳فِ̳̳یْ̳̳قُ̳̳
ھٰ̳̳ذ̳̳ٙا̳ م̳̳ٙا̳ عِ̳̳نْ̳̳دِ̳̳ی̳ و̳̳ٙا̳ل̳ل̳ہُ̳̳ ت̳̳ٙع̳̳ٙا̳ل̳یٰ̳̳ ا̳̳ٙعْ̳̳ل̳̳ٙمْ̳̳ بِ̳̳ا̳ل̳صّ̳̳̳ٙو̳̳ٙا̳ب̳
وَ̳̳ا̳ل̳سَّ̳̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ل̳اَ̳̳م̳ عَ̳̳لَ̳̳ي̳ـ̳ـْ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳كُ̳̳م̳ وَ̳̳رَ̳̳حْ̳̳مَ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ةُ̳̳ا̳ل̳ل̳هِ̳̳ وَ̳̳بَ̳̳رَ̳̳ك̳ـَ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ا̳تُ̳̳ه̳
ھٰ̳̳ذ̳̳ٙا̳ م̳̳ٙا̳ عِ̳̳نْ̳̳دِ̳̳ی̳ و̳̳ٙا̳ل̳ل̳ہُ̳̳ ت̳̳ٙع̳̳ٙا̳ل̳یٰ̳̳ ا̳̳ٙعْ̳̳ل̳̳ٙمْ̳̳ بِ̳̳ا̳ل̳صّ̳̳̳ٙو̳̳ٙا̳ب̳
وَ̳̳ا̳ل̳سَّ̳̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ل̳اَ̳̳م̳ عَ̳̳لَ̳̳ي̳ـ̳ـْ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳كُ̳̳م̳ وَ̳̳رَ̳̳حْ̳̳مَ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ةُ̳̳ا̳ل̳ل̳هِ̳̳ وَ̳̳بَ̳̳رَ̳̳ك̳ـَ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ا̳تُ̳̳ه̳
Post a Comment